پچھلے کئی سال سے دنیا میں آلودگی میں پہلے نمبر پر آنے والے اپنے شہر کا خبروں میں چرچا سن کر جو شرمندگی محسوس ہوتی ہے وہ ایک طرف ، اس آلودگی کی اذیت زیادہ دکھ دیتی تھی، حکومت پر بھی غصہ آتا تھا اور لوگوں پر بھی ،جنہیں بغیر روک ٹوک اور جرمانے کے سیدھے رستے چلنے کی عادت نہیں رہی۔ سوچتی تھی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کہیں بڑی مصیبت میں گرفتار نہ کر دے مگر دیر آید درست آید محکمہ ماحولیات کا اشتہار پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کلائمیٹ لیڈر شپ انٹرنشپ پروگرام کے تحت لاہور شہر کو صاف رکھنے کے لئے شعور بیدار کرنے کی ذمہ داری اٹھارہ سے پچیس سال کے فریش گریجویٹس نوجوانوں کودی گئی ہے ، جو اپنے علاقوں میں کسی بھی حوالے سے اسموگ کا سبب بننے والے عوامل کا تدارک کرنے کی سعی کریں گے ، یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے کیونکہ آج کے نوجوان کاغذی کارروائی کی بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں یقیناً تین مہینوں کی اس سرگرمی کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے ، سرسبزاور اسموگ فری پنجاب کیلئے جوش وجذبے کے ساتھ کام شروع ہو چکا ہے۔ محکمے کی منت ترلے اور قانون کے ڈنڈے کے ساتھ مثبت نتائج کی امید ہے۔ امید ہے لوگ اپنی موٹرسائیکلوں، کاروں، ٹرکوں، بسوں فیکٹریوں کی چمنیوں کو زہریلا دھواں پیدا کرنے سے پاک کریں گے ، پلاسٹک کا استعمال ختم کریں گے ، مونجی اور دیگرفصلوں کی باقیات نہیں جلائیں گے اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں گے۔ محکمہ ماحولیات کے نیک نیت ، فعال اور وژنری سیکریٹری راجہ جہانگیر انور چیلنجوں کا سامنا کرکے متوقع نتائج حاصل کرنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے انکی قابلیت کے سبب اس خاص محکمے کی جو ذمہ داری انھیں تفویض کی گئی ہے وہ اسے کماحقہ پورا کرکے لاہور کو دوبارہ خوبصورت شہر بنائیں گے ۔
گرمی اور سردی کے موسم میں عجیب طرح کی شدت در آئی ہے ، یہ شدت وہ وحشت ہے جو انسان نے اپنے عمل کے ذریعے فطرت کی جھولی میں ڈال کر اسے پراگندہ کیا ہے ۔جس کے باعث ہر موسم کا مزاج جارحانہ اور منتقمانہ ہو گیا ہے ۔لاہوریوں کو رومان اور بہار کی کوئی رْت میسر نہیں رہی ، گرمی کی شامیں لْو سے جلی ہوئی اور سردیوں کی دوپہریں دُھند میں لپٹی ہوئیں زندگی کا منظرنامہ دھندلا اور دشوار بناتی ہوئی آتی چلی جاتی ہیں ، تعلیم ، معاش اور صحت سب متاثر ہیں۔آج کل ذرا اے سی اور پنکھے سے دور ہوں تو سانس لینا دشوار ہونے لگتا ہے ، ایسا اسلئے ہے کہ ہوا میں نمی کا تناسب ستر 75 فیصد ہے ، شدید گرمی کے سبب زمین پر موجود پانی بخارات کی شکل میں ہوا کا حصہ بن کر آکسیجن کی کمی کا باعث بنتےہیں، فضا میں وائرس اور بیکٹیریا کی افزائش تیز تر ہو جاتی ہے ، جسم اور ماحول کے درجہ حرارت میں شدید فرق پانی کی کمی سمیت کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔ابھی سانس چل رہا ہے تو اسے فطرت کی وارننگ کا دورانیہ سمجھئے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ماسک کی بجائے ہر وقت آکسیجن سلنڈر اٹھائے رکھنے کی اذیت نہ جھیلنی پڑ جائے ۔ فطرت کی آواز کو سْن کر اصلیت کی طرف سفر شروع کرنے والے برازیلی جوڑے کی فطرت سے بے مثال محبت کی کہانی سن کر اْمید بندھی کہ فطرت کی مہربانی کا دائرہ کار ماں کی طرح لامحدود ہے ۔اولاد غلطی کر کے لوٹ آئے تو سب بھلا کر مالا مال کر دیتی ہے ۔لیلیا اور سیبسٹیاؤ نے فطرت کو بحال کرنے کے لئے ایک تنظیم ٹیرا انسٹی ٹیوٹ بنائی جس کے تحت صرف اٹھارہ سال میں اپنے علاقے میں بیس لاکھ مقامی درخت لگا کر جنگل آباد کر کے اصل ماحولیاتی نظام بنایا ۔جس کے نتیجے میں ناپید ہوتی جارہی 172 پرندوں کی اقسام، 33 ممالیہ جانور،30خشکی و تری پر رہنے اور رینگنے والے جانور واپس آئے اور 293 اقسام کے پودے دوبارہ اْگنا شروع ہو گئے۔جنگل لگانے کا خیال عورت کی سوچ میں آیا تو دونوں نے مل کر اسے عملی تعبیر دینے کا فیصلہ کیا ۔جس کے نتیجے میں کھوئے ہوئے کیڑے مکوڑے، مچھلیاں اور پرندے واپس آگئے۔یہ محبت فطرت کی اصل یعنی شفافیت ، معصومیت اور سادگی کو برقراررکھنے کی کامیاب کوشش ہے۔حقیقتاً یہ سب درختوں کی بدولت ممکن ہوا۔قدرت نے ہر علاقے کو مخصوص درخت عنایت کئے ہیں اس لئے مقامی درخت لگا کر آکسیجن کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے اور موسم کی شدت کو معتدل بنایا جاسکتا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ