سود کے خاتمہ کی بجائے پاکستان میں سود خوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب سب سے منافع بخش کاروبار ہی یہ ہو گیا ہے کہ اپنے پیسے بینک میں جمع کرواؤ اور گھر بیٹھے سود کھاؤ۔ ٹوکیو میں جنگ گروپ سے منسلک سینئر صحافی محمد عرفان صدیقی نے جنگ میں شائع ہونیوالے اپنے کالم ’’جاپان اور پاکستان کا سودی نظام‘‘ میں اس رجحان کو اجاگر کیا کہ اب بیرون ملک مقیم پاکستانی کس طرح ہر ماہ پاکستان میں بسنے والے اپنے گھر والوں کو پیسہ بھجوانے کی بجائے دو تین کروڑ روپیہ پاکستانی بینک میں جمع کروا کر لاکھوں روپے ماہانہ سود کی رقم بھی اپنے گھر والوں کو مہیا کرنے لگے ہیں اور اپنا پیسہ بھی بینک میں محفوظ رکھتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی رجحان پاکستان میں بسنے والوں کی بڑی تعداد کا ہے جنہوں نے کاروباری حالات کی خرابی کے باعث اپنا پیسہ بینکوں میں جمع کروا کر گھر بیٹھے سود کھانا شروع کر دیا ہے۔ سود کتنا بڑا گناہ ہے اس کا بھی سب کو علم ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ سود پاکستان اور ہمارے معاشی نظام کی جڑوں کو کس تیزی سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، اسکے باوجود جن کو اس لعنت سے پاکستان کو پاک کرنا چاہئے وہ ایسا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ الٹا ملک میں سود خوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں بے پناہ اضافہ کر دیا جس سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کھربوں میں بڑھ گیا تو دوسری طرف ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ اور جیسے معاملات چل رہے ہیں اگر ایسے ہی چلتے رہے توآنے والے برسوں میں پاکستان کا پورے کا پورا بجٹ سود کھا جائے گا۔ اگر ہم بیرون ملک قرضوں پر سود کی ادائیگی کی وجہ سے بے بس ہیں تو کم از کم ملک کے اندر تو اس لعنت کے خاتمہ کیلئے فیصلہ کن قدم اُٹھانا چاہئے۔ یہاں تو فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ موجود ہے لیکن اُس پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ آج کل کاروباری طبقہ کی طرف سے بجا طور پر آئی پی پیز (IPPs) کے حوالے سے بہت بات کی جا رہی ہے کہ کس طرح کیپیسٹی چارجز کے ضمن میں بغیر بجلی پیدا کیے قوم کے کھربوں روپے جیبوں میں ڈالے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ چالیس خاندان جو ان IPPs کے مالک ہیں اُن کو کھربوں روپے دینے کیلئے پاکستان میں بجلی اتنی مہنگی کر دی گئی کہ یہاں کاروبار کرنا ممکن نہیں رہا جبکہ عام آدمی کیلئے بجلی کا بل ایک عذاب بن چکا ہے۔ جہاں تک سوداور پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کا تعلق ہے تو پاکستان میں بینکوں کے کاروبار پر نظر ڈالنی پڑے گی جو سود کی وجہ سے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔بینک عوام کے Deposits کو استعمال کر کے بھاری سود پر قرضہ حکومت کو دیتے ہیں اور یوںبینکنگ سیکٹر اربوں کھربوں سود سے کمارہا ہوتا ہے اور پاکستان کی ریاست سود کی دلدل میں مزیددھنستی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے 10جون کو اپنے کالم بعنوان ’’پاکستان کو قرض و سود سے بچانے کی ایک تجویز‘‘ میں ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی طرف سے پاکستان کے اندرونی قرضوں اور ان پر سود کے بوجھ کو ختم کرنے کا حل بتایا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے قرضوں اور سود کے بہت بڑے حصے کا تعلق اندرونی قرضوں سے ہے۔ اس سلسلے میں ،میں نے وزیراعظم شہباز شریف سے بھی بات کی لیکن افسوس کہ کسی نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان کو سود کھائے جا رہا ہے لیکن یہ سب کچھ سمجھتےاور جانتے ہوئے بھی کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے، کتنی بڑی لعنت ہے اسکے خاتمے کیلئے کوئی سنجیدہ نہیں۔ حال ہی میں ایم کیو ایم کے رہنما اور ایم این اے مصطفی ٰکمال صاحب نے سود کے خاتمے اور اس سلسلے میں حکومت کی پالیسیوں اور سپریم کورٹ کی طرف سے سود کے خلاف فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کئے جانے کی درخواستوں کو فوری سنے جانے کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے اس مسئلہ کو اسلامی حوالوں کیساتھ قومی اسمبلی کے اندر بھی پیش کیا اور اس ایشو پر پریس کانفرنس بھی کی لیکن اُن کی بات کو بھی حکومت اور سپریم کورٹ دونوں نے سنی ان سنی کر دیا۔ گزشتہ روز مفتی تقی عثمانی نے بھی سود کے معاملے کو پھر اُٹھایا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کیخلاف سب کو بات کرنی چاہیے تاکہ سود کی لعنت کا یہاں سے خاتمہ ہو سکے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ