دنیا کی ہر سیاسی جماعت میں شکرے اور فاختائیں دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، پارٹی لیڈر حکمت عملی کے تحت کبھی شکروں کو آگے کرکے جارحانہ رنگ اختیار کرتا ہے اور کبھی فاختاؤں کو آگے کرکے مفاہمانہ تاثر دیتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف البتہ اس حوالے سے کافی مختلف رہی ہے، جب سے عمران خان مقبول ہوئے ہیں وہ مسلسل شکروں کے حصار میں خوش ہوتے رہے ہیں، فاختائیں ان کے پارٹی اجلاسوں میں دب کر رہتی ہیں مگر عمران خان کے جیل جانے کے بعد سے بھی پارٹی کے اندر دو آرا رہیں ۔ شکرے کہتے رہے انتخابات کا بائیکاٹ کریں، قومی اسمبلی میں نہ بیٹھیں، دھرنے دیں، جلوس نکالیں اور ہر چیز تہس نہس کردیں لیکن فاختاؤں نے رائے دی کہ الیکشن میں حصہ لینا بہتر ہوگا۔ان کا مشورہ تھا کہ بائیکاٹ، دھرنے اور جلوس نکالنے کی بجائے آئینی اور قانونی جدوجہد کی جائے۔ عمران خان نے باوجود دوسری طرف کی رائے کی شدت کے فاختاؤں کی رائے کو تسلیم کیا۔ شکرے کہتے رہے سپریم کورٹ سے انصاف نہیں ملے گا قومی اسمبلی میں بیٹھنے اور حلف اٹھانے کا مطلب انتخابات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ شکرے کان بھرتے تھے کہ فاختائیں کمپرومائزڈ ہیں یہ سب مقتدرہ کے ایجنٹ ہیں لیکن سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ فاختاؤں کے دلائل درست تھے ،اسی نظام کے اندر انہیں انصاف مل گیا وکیل جیت گئے اور شکرے ہار گئے۔
سید علی ظفر،بیرسٹر گوہر،اسد قیصر، عمر ایوب اور وکلا سلمان اکرم راجہ اور سلمان صفدر نے مشکل ترین حالات میں آئین، قانون اور پرامن جدوجہد سے فتح حاصل کرلی ۔اگر شکروں اور یوٹیوبرز کے مشورے پر چلا جاتا تو آج پارٹی کی باقی قیادت بھی جیلوں میں ہوتی، فیصلے بھی ان کے حق میں نہ آ رہے تھے جو ریلیف اور سپورٹ مل رہی ہے وہ بھی نہ ملتی۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ بھی فاختاؤں کی پالیسی چلے گی یا پھر شکرے پارٹی کو جارحیت کی طرف دھکیل دیں گے؟اصل میں ہر مقبول لیڈر کو جارحیت کے مشورے اچھے لگتے ہیں اور پھر وہ اپنے ارد گرد بھی ایسے ہی لوگ اکٹھے کرلیتا ہے جو اس کی پسند کے مشورے دیتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کے ہجوم اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ MOB PSYCHOLOGY یعنی ہجوم کی نفسیات کے تحت اپنی ذاتی نفسیات کو بھول کر اجتماعی نفسیات کے تحت عمل شروع کردیتے ہیں ۔ فرض کریں ایک ایسا شخص جس نے کبھی زندگی میں پتھر یا کنکر تک نہیں اٹھایا جب وہ ہجوم میں شامل ہوگا تو وہ تشدد پر اتر آئے گا، اپنی انفرادی زندگی میں وہ پر امن شہری ہوگا مگر ہجوم میں وہ انتہا پسندی میں سب سے آگے ہوگا۔ 9 مئی کا واقعہ ہو یا تشدد و تخریب کے دوسرے واقعات ان میں ہجوم کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے اور جب کوئی ایک شخص کنکر پھینکتا ہے یا آگ لگاتا ہے تو ہجوم میں سے بہت سے ایسے جنہوں نے کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ہوتی وہ آگ پر تیل پھینکنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف میں جوش اس قدر زیادہ ہے کہ ہوش کی بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ اب جبکہ انہیں قانونی جنگ میں اتنی بڑی فتح ملی ہے اب ہوش کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شکرے نئے سرے سے صف بندی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ گرتی ہوئی دیوار کو بس دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ اب نہ مقتدرہ اور نہ ہی حکومتی جماعتیں ان کا راستہ روک سکتی ہیں، اب اقتدار کا پکا پکایا پھل ان کی گود میں گرنے ہی والا ہے۔ امید یہ کرنی چاہیے کہ پارٹی کی فاختائیں انہیں سمجھائیں گی کہ ہنوز دہلی دور است ۔ تحریک انصاف کو اس فیصلے کے بعد بھی مقتدرہ اور حکومتی سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ اور مفاہمت کا راستہ کھولنا چاہیے۔ تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت ہے مگر وہ پورا پاکستان نہیں ہے ۔یہاں پر اپوزیشن بھی ہے مقتدرہ کا بھی ریاست میں بہت بڑا اسٹیک ہے ۔ان قوتوں سے لڑ کر اور انہیں ہرا کر فتح یاب ہونے کے لئے ایک لمبی جدوجہد درکار ہوگی۔ شارٹ کٹ راستہ مفاہمت، صلح صفائی، معاف کرو اور بھول جائو والا ہی ہے۔
فاختائیں 9مئی کی خطرناک کھائی سے تحریک انصاف کو 8 فروری کے کھلے میدان میں لائیں اور اب اس میدان میں انہیں برتری بھی دلا دی۔ شکروں کو فری ہینڈ ملا اور ان کی پھر سنی گئی تو یہ تحریک انصاف کو پھر سے 9مئی جیسی کسی اور خوفناک گھاٹی میں گرا دیں گے۔ حقائق سے مکمل کٹے ہوئے بیرون ملک بیٹھے تبصرہ نگار، روپوش چی گویرے ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا کے نام نہاد انقلابی جوش، لڑائی، گالی گلوچ اور دشنام کے علاوہ کسی حکمت عملی پر نہ یقین رکھتے ہیں اور نہ اس کو مانتے ہیں۔ انہی میں سے چند وہ تھے جو 9مئی کی طرف دھکیلنے والے تھے اور اگر انہیں پھر موقع ملا تو انتہا پسندی اور فسطائیت کے وہ رویے اختیار کریں گے کہ ان کی پارٹی کے حامی بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے۔ یہ شکرے چائے کی پیالی میں انقلاب لا کر اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو کوچہ و بازار میں پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں ۔وہ کبھی مقتدرہ سے بدلہ لینے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی ججوں سے نمٹنے کا عزم کرتے ہیں کبھی اختلاف رکھنے والے میڈیا کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی ان کا مذاق اڑا کر ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کوئی حادثہ نہ ہوا تو حالات تحریک انصاف کو اقتدار میں دوبارہ لانے کی طرف تیزی سے رواں دواں ہیں لیکن انتقام کا یہ جذبہ، بدلے کی باتیں کہیں حالات کے دھارے کو موڑ نہ دیں، کہیں تحریک انصاف کے مخالف اکٹھے ہو کر ان سے فیصلہ کن جنگ پرنہ اتر آئیں۔ جب انہیں انتقام اور بدلے کا خوف ہوگا تو وہ تحریک انصاف کی اقتدار میں واپسی کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے۔ ہوسکتا ہے اس میں تحریک انصاف کے مخالف ہار جائیں اور تحریک انصاف جیت جائے لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے مخالف جاتے جاتے اسے ایسا زخم لگا جائیں کہ وہ کبھی سنبھل ہی نہ سکے۔
تحریک انصاف کی بہترین حکمت عملی مفاہمانہ ہوگی۔ فتح مکہ سے سیکھ کر چلیں، مخالفوں کو بھی عزت دیں، انتقام کی جو بھی بات کرے اسے روکیں۔ وہ لوگ جنہوں نے گالیاں اور دشنام وطیرہ بنا لیا ہے، وہ کل کو اپنی عادت کے تحت عمران کو بھی گالیاں نکالا کریں گے۔ آج عمران خان پر سخت وقت انہی شکروں کی وجہ سے آیا ہوا ہے اور اگر یہی شکرے تحریک انصاف کے ہجوم کی نفسیات سے کھیلتے رہے تو تحریک انصاف جیت کر بھی ہار جائے گی۔فتح کی نفسیات معاف کرنا اور بھول جانا ہے، شکست کی نفسیات میں انتقام اور نفرت ہوتی ہے۔ شکست اور جارحیت سے نکل کر تدبر اور مفاہمت کی طرف چلنا ہی بہترین حکمت عملی ہوگی ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ