12جولائی بروز جمعة المبارک سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں بارے جو زناٹے دار فیصلہ آیا ہے، نون لیگی قیادت اور نون لیگی سیاستدانوں پر حیرت کے پہاڑ گر پڑے ہیں ۔ البتہ پی ٹی آئی بے حد خوش اور مطمئن ہے ۔ اڈیالہ جیل کا قیدی بھی بہت مسرور ہوگا۔
اِس سپریم کورٹ کے فیصلے کا مختصر الفاظ میں مطلب یوں بیان کیا جا سکتا ہے : جو پارٹی عدالتِ عظمی کے روبرو سوالی تھی، اس کی جھولی میں تو کچھ بھی نہیں ڈالا گیا اور جو پارٹی سرے سے سوالی ہی نہیں تھی، سپریم کورٹ کے اکثریتی جج صاحبان نے اس پارٹی کی جھولی بھر دی ہے۔
اب جب کہ فیصلہ سب کے سامنے آ چکا ہے، سب کو اِس کے پہلووں کا تنقیدی جائزہ لینے کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے ۔فیصلے سے قبل اڈیالہ جیل کے قیدی نے جو دوبڑے اقدامات کیے ، ان کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے ہونگے ۔ بڑے قیدی نے مطالبہ کیا تھا:(1) چیف جسٹس آف پاکستان میرے مقدمات سے الگ ہو جائیں (2) مجھے انصاف نہ ملا تو میں بھوک ہڑتال کروں گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اِن مطالبات و بیانات نے بھی، خصوصی نشستوں کے حوالے سے فیصلے پر، کسی نہ کسی شکل میں اپنے اثرات دکھائے ہوں ۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے مذکورہ فیصلے کے فوری بعد جو بھاری بھر کم پریس کانفرنس کی ، اِسی سے ان کی مسرتیں اور خوشیاں عیاں ہوتی ہیں ۔ پی ٹی آئی کی خوشیاں بجا بھی ہیں کہ اِس فیصلے نے ان کی مقتدر حریف پارٹیوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں مقتدر اور حکمران پارٹی اکثریت کھو چکی ہے ۔پی ٹی آئی اب قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بن چکی ہے۔ فیصلے نے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا پارلیمانی تشخص بھی بحال کر دیا ہے ۔ عدت کیس کا فیصلہ بھی خان صاحب اور ان کی اہلیہ کے حق میں آیا ہے ۔ گویا پی ٹی آئی کو تو وِن وِن پوزیشن حاصل ہے ۔ دوسری جانب مقتدر نون لیگ پر حیرانی اور پریشانی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔
سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد نون لیگ کے وزیر قانون، وزیر اطلاعات اور وزیر دفاع نے پریس کانفرنسوں میں جو گفتگو کی ہے، صاف نظر آرہا تھا کہ دونوں فیصلوں نے ان کے خوابوں اور آدرشوں کو درہم برہم کر دیا ہے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کو باجماعت یہ باور کرانے اور یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ دونوں فیصلوں سے کچھ بھی بگڑا ہے نہ بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اور یہ کہ ان کی حکومت کو زک پہنچی ہے نہ حکومت کہیں جا رہی ہے ۔ اور سننے والے، بقول غالب، مسکراتے ہوئے یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں: باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں فیصلوں نے پی ٹی آئی کے تنِ مردہ میں نئے سرے سے نئی جان ڈال دی ہے ۔
مرکز میں قائم نون لیگی و شہبازحکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے اِس اکثریتی فیصلے بارے نواز شریف صاحب بھی خاموش ہیں اور ان کی وزیر اعلی صاحبزادی صاحبہ بھی ۔ بحیثیت نون لیگی صدر جناب نواز شریف کو اِس فیصلے بارے کچھ تو لب کشائی کرنی چاہیے تھی کہ نون لیگی سیاستدان اور نون لیگی کارکنان بیتابی سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔نواز شریف مگر حسبِ معمول لب بستہ ہیں کہ ایک چپ ، ہزار سکھ ۔یوں محسوس ہورہا ہے جیسے نواز شریف مرکزی حکومت سے لاتعلق ہو گئے ہیں ۔
ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی ، والد صاحب کی دیکھا دیکھی، فیصلے پر خاموش ہیں ۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی منتخب حکمران ہونے کے ناتے ان پر لازم تھا کہ وہ فیصلے بارے کچھ تو اپنے خیالات کا اظہار کرتیں۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے ۔
ویسے تو وزیر اعظم جناب شہباز شریف، جن کی حکومت فیصلے کے بعد لرزہ بر اندام ہے، بھی خاموش ہیں ۔ کیا نواز شریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کی اِس اجتماعی خاموشی کو کسی طوفان کا پیش خیمہ سمجھا جائے؟ کیا یہ بھی سمجھا جائے کہ نواز شریف نے چوتھی بار خود وزیر اعظم نہ بن کر مستحسن فیصلہ کیا تھا ؟کیا شہباز شریف دباو میں ہیں؟ اگر دباو میں نہیں ہیں تو وہ کیوں کہہ رہے ہیں: استعفی دے دوں گا لیکن کسی کے دباو میں نہیں آوں گا۔
لاریب سپریم کورٹ کے فیصلے نے شہباز حکومت کو سخت دھچکا پہنچایا ہے ۔مرکزی حکومت کے پاوں تھڑک گئے ہیں ۔کہنے والے کہہ رہے ہیں: کیا مزہ ایسی حکومت کاری کا جب آئے روز حکومت کو دھچکے پر دھچکا پہنچ رہا ہو؟ تازہ بجٹ کے کارن پھیلتی قیامت خیز مہنگائی اور بے روزگاری پہلے ہی شہباز حکومت کے حکومتی حصار میں شگاف ڈال چکی ہے ۔ ادھر امریکی کانگریس کی اکثریتی قرار داد نے شہباز حکومت کو الگ پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے ۔
دل کو سمجھانے کی غرض سے اگرچہ وفاقی حکومت کے جملہ بزرجمہر مسلسل یہ کہہ رہے ہیں ، اور درست ہی کہہ رہے ہیں، کہ امریکی کانگریس کی نون لیگی حکومت کے خلاف قرار داد نان بائنڈنگ ہے ۔ یعنی اِس سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ۔ مگر جنابِ والا، اخلاقیات کی دنیا بھی کوئی ہوتی ہے۔ اِن کے اثرات کو نظر انداز کرنا شاید ممکن نہیں ہے ۔ ابھی امریکی کانگریس کی قرار داد کی دھمک اور دباو کم نہیں پڑا تھا کہ2جولائی کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے مطالبہ کر دیا کہ سابق وزیر اعظم پاکستان، عمران خان، کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قید کیا گیا ہے۔ انھیں فوری رہا بھی کیا جائے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق انھیں معاوضے کا حق بھی دیا جائے ۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ کے اِس مطالبے کو بے جا بھی کہا ہے اور اِسے پاکستانی معاملات میں مداخلت بھی قرار دیا ہے ۔ حکومت کا موقف درست کہا جا سکتا ہے ، لیکن امریکا سے آنے والے اِن دونوں (اخلاقی) دباو سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں ۔ سپریم کورٹ و عدت فیصلوں ، امریکی کانگریس کی قرار داد اور یو این او کے ورکنگ گروپ کے مطالبے نے شہباز شریف کی حکومت کاری کے لطف میں تلخیاں گھول دی ہیں ۔
وہ مگر حکومت سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ حالانکہ ان کے پرانے حلیف ، حضرت مولانا فضل الرحمن ، ان پر طنز کے تیر اور نیزے برساتے ہوئے کہہ رہے ہیں:شہباز شریف وزیر اعظم نہیں ہیں، بس وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اور نون لیگ ہے کہ بوجوہ اِس طنز کا جواب بھی نہیں دے پارہی ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو رہے ایک جانب کہ وہ حکومت کے ساتھی ہیں نہ ساجھی ، مگر یہ صدرِ مملکت قبلہ آصف زرداری کے حکومت مخالف بیانات کو ہم کہاں لے جائیں؟ صدرِ مملکت تو شہباز حکومت کے ساتھی اور ساجھی ہیں ۔ انھوں نے11جولائی کو لاہور میں ارشاد فرمایا : نون لیگ سے حکومت نہیں چل رہی ۔ ہم حکومت بنانا اور گرانا جانتے ہیں۔
جب حکومت کے اہم ترین اتحادی اور ساتھی ہی ایسے دھمکی آمیز بیانات دیتے رہیں تو حکومت کرنے کا مزہ کیارہ جاتا ہے؟ ایسے حالات و واقعات اور فیصلوں کی موجودگی میں حکومت پر بے یقینی کا ہمہ دم لرزہ طاری نہ رہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت، ایک انگریزی محاورے کے مطابق، سخت مشکل پانیوں میں ہے ۔ یہ مشکل پانی اتنے بھنور زدہ، گدلے اور سرکش ہیں کہ کوئی معجزہ ہی حکومت کی دستگیری کرکے اِسے مشکلات و مسائل سے باہر نکال سکتا ہے ۔ آئیے ہم بھی اِن کے لیے دعا کریں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس