قانون اچھے ہوتے ہیں مسئلے اُس وقت ہوتے ہیں جب ان پر عمل نہیں ہوتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ قانون اچھے ہوتے ہیں مسئلے اُس وقت ہوتے ہیں جب ان پر عمل نہیں ہوتا۔جب تفتیش چل رہی ہو تو بندہ ضمانت پر ہی ہوتا ہے، بلاوجہ نظرثانی درخواست دائر نہ کریں۔ موچ کی وجہ سے کون معذور ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سے کیسز ہیں ، ہرآدمی ہمارے پاس آکرالتوامانگ رہا ہے۔ وکیل کاکام ہوتاکیا ہے، کھڑے ہوجائوآئیں شائیں کردو۔ جب تک کچھ پڑھیں گے نہیں ہمیں الہام نہیں ہوگا۔دکیل دنیا کی ساری چیزیں پڑھ دیں گے، پاکستان کے قانون کو ٹوکری میں پھینک دیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے مسمات بشریٰ بی بی کی جانب سے محمد شاہد مغل اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل کی خاتون معاون کی جانب سے التوا کی درخواست کی گئی۔ چیف جسٹس کا التواکی درخواست مسترد کرتے ہوئے معاون وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نظرثانی کولٹکا کر نہیں رکھ سکتے، وکیل کے پائوں میں موچ آئی ہے وہ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوسکتے تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ضمانت کے کیس میں بھی نظرثانی درخواست دائر کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضمانت ہو گئی ہے مقدمہ ختم نہیں ہوا، درخواست دائر کرنے کاکوئی مقصد نہیں، کیا اِس کو جیل میں رکھنا چاہی ہیں، جب تفتیش چل رہی ہو تو بندہ ضمانت پر ہی ہوتا ہے، بلاوجہ نظرثانی درخواست دائر نہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موچ کی وجہ سے کون معذور ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ التوانہیں دیں گ درخواست خارج کریں گے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے گلی جان اوردیگر کی جانب سے المر خان کے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار نے ذاتی حیثیت میںپیش ہوکربتایا کہ ان کے وکیل کاانتقال ہو گیا ہے اورنیاوکیل کرنے کے وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت سے کیسز ہیں ، ہرآدمی ہمارے پاس آکرالتوامانگ رہا ہے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری طرف دیکھ کیا رہے ہیں کیس چلائیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تین عدالتوں نے خلاف فیصلہ دیا ہے کوئی فیصلوں میں خرابی ہے توبتادیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا پیسے ضائع کریں گے قانون کی پوزیشن واضح نظرآرہی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 2011میں درخواست دائر ہوئی، درخواست گزار وکیل بدلنا چاہتے ہیں، کیس کی سماعت مقررہونے سے قبل وکیل تبدیل کیا جائے، کوئی مزید التوانہیں دیاجائے گا، پہلے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود رہیں گے جب تک نیاوکیل نہیں آتا۔

چیف جسٹس کا درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا وکیل کرنے کے لئے 10،12سال چاہیں۔ عدالت نے نیا وکیل کرنے کے لئے درخواست گزار کوایک ماہ کاوقت دے دیا۔بینچ نے مسمات حمیدہ بیگم اوردیگر کی جانب سے حمید اللہ خان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل ضیاء الرحمان خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ وراثت کی بات ہے اس میں دادرسی کی کیا بات ہے، گفٹ میوٹیشن کیاں ہے دکھائیں، 2013کا کیس ہے 11سال ہو گئے ہیں کیوں فائل کھولیں گے، مجھے تعجب ہورہا ہے کہ وکالت کے پیشہ کو ہوکیا گیا ہے، سارے کیس کادارومدار کاغذ پر ہے، وکیل کاکام ہوتاکیا ہے، کھڑے ہوجائوآئیں شائیں کردو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹاس کر لیتے ہیں کون جیت جاتا ہے، اتنی لاپرواہی سے کیس چلارہے ہیں، ایک نام پڑھ لیا ماشاء اللہ، تالیاںبجائیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کو دیکھتے رہیں ، کیا پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں کیس چلا رہے ہیں، جب تک کچھ پڑھیں گے نہیں ہمیں الہام نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ وکیل مکمل بغیر تیاری کے آئے جن دستاویزات کاحوالہ دے رہے ہیں وہ پڑھ بھی نہیں سکتے، 11سال سے کیس زیر التواہے، انصاف کے مفاد میں مزید دستاویزات جمع کروانے اورپڑھنے کے قابل کاپیاں جمع کروانے کے لئے 3ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے۔ بینچ نے مسمات گاموں مائی اوردیگر کی جانب سے ایڈیشنل جج منکیرہ، ضلع بھکر اوردیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کی ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دکیل دنیا کی ساری چیزیں پڑھ دیں گے، پاکستان کے قانون کو ٹوکری میں پھینک دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وکیل صاحبان کبھی ، کبھی کتابیں پڑھ لیں تولوگوں کی بچت ہوجائے گی،کیا ابھی ہم ٹاس کر کے فیصلہ کردیں۔ چیف جسٹس کا وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مئوقف کو چھوڑ دیں تحریری طور پر دکھادیں کیا ہے، پڑھ کرآجائیں کچھ آسانی ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میراخیال ہے جووکیل اس کیس میںپیش ہورہے تھے ان کا لائسنس معطل ہوجانا چاہیئے، ان کو وکالت کاکوئی حق نہیں، لاپرواہی سے کیس چلایاگیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا خالی جگہیں پُر کرنا ہماراکام ہے،وکلاء کی جانب سے لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا کلاسک کیس ہے، کیاثالث میوٹیشن کوکالعدم قراردے سکتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ریونیو والوں کو بلانا تھا، سارے محلے والوں کو بلانے کاکوئی فائدہ نہیں، پورا محلہ پوراپاکستان بلالیں، اس کو کیا پتا میوٹیشن ہورہا ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خاوند نے بیوی کو گفٹ کیا، بچے نہیں تھے ، خادند نے سوچا بعد میں اورلوگ آجائیں گے، 100کنال چھوڑ دی، گفٹ کو اڑانا چاہتے ہیں، دونوں طرف قانون سے نفر ت ہے۔وکیل کاکہنا تھا کہ نجی طورپر ثالثی ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا دونوں فریقین زندہ ہیں۔

اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ خاتون بھی زندہ ہے اوراُس کے بھتیجے بھی زندہ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر غیر ضروری مقدمہ بازی ہے، یہ وکلاء کی وجہ سے ہے، سیدھی سادھی بات کو اتنا پیچیدہ بنادیا ، کیا اس کیس میں سیٹلمنٹ ہوسکتی ہے۔ اس پر مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ میں پوچھ لیتا ہوں۔ پتا نہیں وکیلوں نے لوگوں کی زندگی تباہ کرنے کے لئے کیا کھچڑی بنائی، قانون اچھے ہوتے ہیں مسئلے اُس وقت ہوتے ہیں جب ان پر عمل نہیں ہوتا، وکلاء جاکر اپنے مئوکلین سے معافی مانگیں کہ ہم نے آپ کا کیس خراب کیا ، کمپرومائزہوسکتا ہے کریں نہیں کرنا نہ کریں، ورنہ ہمیں فیصلہ کرناہوگا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیس کااصل ریکارڈ جمع کروایا جائے ، فریقین اوریجنل ریکارڈ پیش کرناچاہیں توکرواسکتے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت ملتو ی کردی۔بینچ نے قلب عباس کی جانب سے ایم سی بی بینک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ ہمارا کام نہیںکہ لوگوں کے پیچھے پھریں، اے اوآرسید رفاقت حسین شاہ حیات ہیں ،اللہ تعالیٰ لمبی زندگی دے وہ خود دلائل دے سکتے ہیں، نظرثانی میں وکیل بھی کرسکتے ہیں۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔