قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی : تحریر وجاہت مسعود


(گزشتہ سے پیوستہ)

قرارداد مقاصد اورمولانا شبیر احمد عثمانی کے عنوان سے یہ بحث ایک سادہ سے جملے سے شروع ہوئی تھی ۔ عرض کی تھی کہ قرارداد مقاصد ان بنیادی ، سیاسی اور جمہوری اصولو ں سے انحراف تھا جن کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس پر دائیں بائیں سے ردعمل ظاہر ہوئے ۔ ابتدائی اعترا ض یہ تھا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی توہین ہوئی ہے۔ اس پر وضاحت کی گئی کہ تمام انسانوں کے بنیادی مساوی احترام سے قطع نظر کسی کی مذعومہ تقدیس کا ہمارے کوچے سے گزر نہیں۔ تاریخی واقعات کی تحقیق اور سیاسی اور سماجی خیالات کی پرکھ کسی پیشوا کے مذہبی دعاوی کی پابند نہیں ۔ مذہبی تقدیس متعلقہ گروہ کے تابعین کا حق ہے ۔ وہ پسند کریں تومولانا اشرف علی تھانوی کی تقلید کریں یا جماعت علی شاہ کے ہاتھ چومیں۔ بنارس کے پنڈت کی چتا کیلئے صندل اور دیسی گھی کا اہتمام کریں یا کسی تقدس مآب سینٹ کو گرجا گھر کے تہ خانے میں مرمر کی سلوں میں دفن کریں۔ عقائد تو کارآسماں ہیں اور ہم ایسے بندگان خاکی کارِ زمیں سے معاملت رکھتے ہیں۔ تقدیس کے موضوعی مباحث سے ہمیں واسطہ نہیں۔ بایں ہمہ مختلف مہربان اپنی آرا سے ہماری تعلیم کر رہے ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ جہاں موقع ہوا، وضاحت کی جائیگی۔ عقیدے سے متعلقہ سوالات پر خاموشی اختیار کی جائیگی۔ فاران احمد صاحب نے سوال کیا ہے کہ اگر انسانوں کا انسانوں کو دیا ہوا نظام فی الحال (اور انتہائی مخصوص حالات میں) کامیاب ہے تو اس سے یہ کیونکر فرض کر لیا جائے کہ ایک جدید ریاست کا قیام مذہب کے دائرے سے باہر ہی ممکن ہے۔ یہاں دو نکات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ سترہویں صدی میں یورپی نوآبادکار ہندوستان آئے تو ہندوستان ایک ریاستی اکائی نہیں تھا۔ یہاں مختلف منطقوں میں ان گنت خودمختار اور نیم خودمختار حکومتیں قائم تھیں۔ برطانوی ہندوستان کے عروج پر بھی مرکزی بندوبست کے اندر 560کے قریب نیم خودمختار ریاستیں موجود تھیں۔ اس طالبعلم کی رائے میں تو 1947ءکے قانون آزادی ہند کو ہندوستان کی تقسیم کہنا بھی تاریخی طور پر درست نہیں۔ ہندوستان کبھی ایک اکائی نہیں رہا۔ مشرقی ہندوستان کی بندرگاہوں اور ان سے ملحقہ علاقوں میں انگریزی راج شمال مغربی ہندوستان سے کم و بیش ایک صدی پرانا تھا۔ اسکے نتیجے میں غیر مسلم اکثریتی جنوب مشرقی ہندوستان اور مسلم اکثریتی شمال مغربی ہندوستان میں معیشت، تمدن اور سیاسی ارتقا میں وسیع خلیج پیدا ہو چکی تھی۔ بنگال میں انگریز راج جنگ پلاسی کے نتیجے میں قائم ہوا جو 1757 میں لڑی گئی۔ ٹھیک ایک سو برس بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر کے ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت قرار دیا گیا۔ سندھ 1843ءاور پنجاب 1849ءمیں انگریزوں کے قبضے میں آئے۔ بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی علاقوں پر انگریزی عملداری کا یہ عالم تھا کہ بلوچستان کبھی صوبہ ہی قرار نہیں پایا اور فرنٹیئر کے وسیع سرحدی علاقے نیم خودمختار رہے۔ اس معاشی اور سماجی تفاوت ہی کے نتیجے میں سیاسی مفادات کے تحفظ کا سوال اٹھا۔ تاریخی طور پر قوم کا تصور ایک ایسے گروہ کا رہا ہے جو نسلی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے مشترکہ خدوخال رکھتی ہو۔ عمومی طور پر قوم کہلانے والے گروہ کے شہری حکمران کا مذہب اختیار کر لیتے تھے۔ اسی رستاخیز میں سلطنت کا تصور بھی شامل تھا جس میں دوسری اقوام پر قبضہ کر کے انکے معاشی وسائل پر اختیار حاصل کیا جاتا تھا۔ یونان اور روم سے لیکر سلطنت عثمانیہ ، برطانیہ ، ہیپس برگ، قفقاز روس، ایران اور مغل سلطنت تک ایک ہی کہانی تھی۔ یورپ میں مذہب کی بنیاد پر صد سالہ اور تیس سالہ جنگوں سے سیکھے گئے تجربات کے نتیجے میں 1648ءکے معاہدہ ویسٹ فیلیا میں سیکولرازم کا اصول تسلیم کیا گیا۔ اس دوران سولہویں صدی سے مذہبی اصلاح پسندی اور فلسفیانہ روشن خیالی کی تحریکیں بھی چل رہی تھیں۔ جدید قومی ریاست کا تصور امریکا کی آزادی ، نیز جرمنی اور اٹلی کی Unificationسے نمودار ہوااور اس کے شانہ بشانہ آئیڈیالوجی کے فکری منہاج نے بھی جنم لیا۔ آئیڈیالوجی کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسا بندوبست حکومت جو معیشت ، سیاسی انتظام اور رہن سہن کے مخصوص خدوخال نیز دیگر نظریاتی نمونوں پر برتری کا واضح نصب العین رکھتا ہو۔ قومی ریاست کے دو متعین زاویے سامنے آئے ۔ (1) متعین جغرافیائی حدود (2) قومی ریاست کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے متنوع لسانی ، نسلی اور مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی مساوی شہری حیثیت۔ دوسرے لفظوں میں قومی ریاست میں ایک ہی گروہ کا موجود ہونا یا گروہی تنوع پر کسی ایک شناخت کی بالادستی ناقابل قبول ٹھہری۔ 1947ءمیں ہندوستان کی تقسیم 1940ءمیں وائسرائے لنلتھگو کے اس اعلان کا نتیجہ تھی کہ جنگ کے بعد ہندوستان میں دستور ساز اسمبلی قائم ہو گی ۔ اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ہندوستان سے علیحدگی کا اصول تسلیم کیے جانے تک آزادی کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف کانگرس خود کو ہندوستان کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے فوری آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس پس منظر میں نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کے بعد ہندوستان کے آئینی بندوبست پر سیاسی اختلاف پیدا ہوا۔ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی تحریک چلی۔ قرارداد لاہور منظور ہوئی۔ کرپس کمیشن اور کیبنٹ مشن کے مراحل درپیش ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی حکومت ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ منظور نہیں کر سکتی تھی۔ ہندوستان میں کانگرس اور مسلم لیگ کے عنوان سے دو سیاسی قوتیں سامنے آئیں۔ اس مجادلے میں قائداعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے رہنما تھے۔ وہ ایک قانون دان تھے ۔ 1910 سے نمائندہ قانون ساز اداروں کے رکن چلے آرہے تھے۔ عالمی اور مقامی سیاست کے خدوخال سمجھتے تھے۔ ذاتی زندگی میں روشن خیال اور روادار رویے رکھتے تھے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دس کروڑ مسلمانوں کے سیاسی رہنما قائداعظم تھے اور مسلمانوں کی مذہبی قیادت کے دعوے دار گروہ کا قائداعظم کی سیاست سے کیا تعلق تھا۔ اس کا جواب اگلی نشست میں دیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ