شدت پسندی اور محرکات : تحریر نعیم قاسم


شدت پسندی (Radical ism) سے مراد کسی شخص، گروہ یا ادارے کا وہ غیر لچکدار رویہ ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے عقائد، نظریات اور خیالات کے خلاف کسی دوسرے فریق کی کسی بات یا دلیل کو پرکاہ کے برابر اہمیت دیتا ہے اور ہر حال میں اپنے جامد نظریات کو ہی حرف آخر تصور کرتا ہے اس پر مستزاد کہ شدت پسند اپنی بات منوانے کے لیے طاقت کے استعمال اور جارحانہ رویے کوجاہز سمجھتے ہیں شدت پسندی یا انتہا پسندی کی مختلف صورتیں ہیں انفرادی، مذہبی، سیاسی، نسلی، فرقہ وارانہ اور قومی شدت پسندی کے اپنے اپنے محرکات، پس منظر اور وجوہات ہیں پاکستان کا معاشرہ بدقسمتی سے مندرجہ بالا تمام اقسام کی شدت پسندی کا شکار ہے انفرادی شدت پسندی کا سب سے بڑا شکار ہماری خواتین اور بچے ہیں، خاص کر وہ بچے جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسروں کے گھروں، کارخانوں، ہوٹلوں اور ورکشاپس میں کام کرتے ہیں ان بچوں کو ذہنی، جسمانی اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے غریب اور متوسط طبقے کی خواتین کو گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کا عام رواج ہے مذہبی انتہا پسندی میں اقلیتوں اور مخالف فرقے کے افراد کو قتل کرنے کے لیے توہین مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کا چلن عام ہے حال ہی میں بدین میں ایک شخص کو توہین قرآن کا الزام لگا کر ہجوم نے آگ میں زندہ جلا کر راکھ کر دیا جبکہ توہین قرآن کا کسی کے پاس کوئی مستند ثبوت بھی نہیں تھا، گوجرہ میں عیسائیوں کی بستیوں کو جلا دیا جاتا ہے جبکہ اصل وجہ ذاتی رنجش یا کوئی لین دین کے مسائل تھے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے متعلق ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے “شدت پسندی اس بات کا مظہر ہوتی ہے کہ سماج میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے افراد کے مابین رابطے اور ڈائیلاگ کا فقدان ہے لہذا ریڈیکلا ئزیشن ایک سوچ کا نام ہے اور دہشت گردی اس سوچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اہداف کا ایک ذریعہ ہے جبکہ اسلام میں جہاد
دہشتگردی کے برعکس ایک دفاعی ہتھیار ہے” بدقسمتی سے پاکستان میں ریڈیکلا ئزیشن کو ریاستی سرپرستی میں قومی، گروہی اور اداراتی مفادات کے حصول کے لیے ایک مہرے کی طرح استعمال کیا گیا اور اس غلط ریاستی حکمت عملی نے عرصہ دراز سے ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا رکھا ہے 80 کی دہائی میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر سامنے آیا مذہبی شدت پسندی کی تمام نمائندہ قوتیں متحدہ ہو کر اسلام کے لبادے میں کمیونزم کے خلاف امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو گئیں تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا سے شدت پسندوں کو سی آئی اے نے ہمارے انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آباد کیا اسی دور میں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آکر آباد ہوئے اور امریکی عزائم کی تکمیل کے لیے کمیونزم کے خلاف امریکی جنگ کو جہاد کے نام پر لڑتے رہے اصغر خان اور ولی خان کے علاوہ پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس افغان جہاد کی اہم سٹیک ہولڈرز تھیں جرنیلوں، مذہبی اور سیاسی زعماء نے امریکی ڈالرز کی ریل پیل سے اپنی نسلوں کو خوب سنوار مگر 9/11 کے بعد یہی افغان مجاہدین کو امریکیوں نے دہشت گرد قرار دے دیا ہماری اسٹیبلشمنٹ رچرڈ ارمٹریج کی ایک دھمکی پر سرنڈر کر گئ جس کے نتیجے میں ہمارے پالتو نان اسٹیٹ ایکٹرز نے تکفیر یت کے تحت پاکستان اور اس کے عوام پر خود کش حملے شروع کردیئے بیس سالوں میں ہمارے پچاس ہزار شہری اور پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کو طالبان نے شہید کر دیا ہم نے ان کے خلاف صرب عصب اور ردالفساد کے ملٹری آپریشنز کر کے دیکھ لیے ان سے مصالحت اور صلح کی کوشش کر کے دیکھ لی ہم سمجھتے رہے کہ جب ہماری سپورٹ سے افغان طالبان برسرِ اقتدار آئیں گے تو تحریک طالبان پاکستان سرنڈر کر کے پاکستان کے آئین اور قانون کے تابع ہو جائے گی مگر یہ ہماری خام خیالی تھی اس phenomenon کی جڑیں بڑی گہری ہیں انسانی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ تاریخ کا پہیہ ہماری خواہشات کے تابع نہیں ہوتا ہے صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر تاریخی آشوب کی جڑیں سماج کے اندر ہوتی ہیں بیرونی طاقتیں یا حملہ آور انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر فتح یاب ہوتے ہیں آج کا پختون طالبان کے ساتھ لڑی جانے والی دہشت گردی کی جنگ میں حالات کے جبر کا شکار ہے کوئی بھی جنگ، مذاکرات طالبان کو اپنا نظریہ حیات بدلنے اور ریاست پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی ہے کیونکہ طالبان کی مسلح جنگ اس طرز حیات کی نفی کرتی ہے جو ریاست پاکستان کے باقی علاقوں میں ہے پاکستانی عوام کا رہن سہن، اور تہذیب و ثقافت طالبان کی نظر میں کافرانہ ہے اس لیے پاکستان کی ریاست کسی بھی قسم کے آپریشن یا مفاہمت کے عمل سے طالبان کے مسئلے کونہیں نپٹ سکتی ہے کیونکہ یہ طالبان پاکستان اور افغانستان کے قبائلی معاشرے کے اندرونی تضادات کی پیداوار ہیں، غربت، جہالت، بیروزگاری، ظلم و ناانصافی کی وجہ سے مفاداتی سماجی ارتقاء نے دہشت گردی کو باقاعدہ ایک کاروبار اور انڈسٹری بنا دیا ہے جہاں وار لارڈز کے اپنے قوانین اور مرضی چلتی ہے اگر چہ جدیدیت کی لہر نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے مگر ان کے مقابل طالبان نے مذہبی اور قدیم قبائلی روایات کا جو مرکب نظریہ پیش کیا ہے اس کا توڑ فی الحال ممکن نہیں ہے طالبان کے خلاف اب عزم استحکام آپریشن شروع کیا جا رہا ہے جس سے کچھ عرصہ تک تو جنگجو زیر زمین چلے جائیں گے مگر جب موقع ملے گا وہ دوبارہ ریاست کے خلاف جنگی کارروائیوں کو شروع کر دیں گے گزشتہ چار دہائیوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے یہ خوش قسمتی ہے کہ خیبر پختون خواہ کے عوام ایک پنجابی لیڈر کے پیروکار ہیں جو وفاق پر یقین رکھتا ہے اگر عمران خان کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا تو خیبر پختون خواہ کے عوام منظور پشتین کے ساتھ ہو گئے تو کیا ہو گا لہذا شدت پسندی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر خیبر پختون خواہ کی ایجنسیوں اور بلوچستان میں کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ نیشنل ازم کے نام پر غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار نہ بن جائیں
کیونکہ تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جس کے تمام صوبوں اور قبائلی علاقوں میں روٹس موجود ہیں مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں کافی زیادہ حمایت ہے لہذا ان رہنماؤں کو کٹ ٹو سائز کرنے کی وجہ سے جو سیاسی خلا پیدا ہو گا اس کو پھر انتہا پسند نیشنلسٹ اور طالبان کے حمایت یافتہ سیاسی گروہ ہی بھریں گے جو ریاست پاکستان کی سالمیت کے لیے بے حد خطرناک ہو گا پاکستان نے 80 کی دہائی کے بعد ملک کے مغربی بارڈر پر جو پالیسی بھی اختیار کی اس میں وار آن ٹیر کے نام پر 18 بلین ڈالر ز امریکہ سے ملے مگر دہشت گردی کے عفریت کے ساتھ ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان ہوا تو بقول منیر نیازی
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اسکا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا