امریکی کانگریس میں قرارداد : تحریر مزمل سہروردی


تحریک انصاف کی امریکی تنظیم اس بات پر فتح کے شادیانے بجا رہی ہے کہ امریکی کانگریس کے ایوان نمایندگان نے پاکستان مخالف ایک نان بائنڈنگ قرارداد منظور کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے امریکا اور یورپ میں مقیم لیڈر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا کانٹس سے بھی اس قرارداد کی منظوری کا بتایا گیا ہے۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان کے خلاف یہ قرار داد ان کی کاوشوں کے نتیجے میں منظور ہوئی ہے۔ کیا اس طرز عمل کو پاکستان سے محبت کہا جاسکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے بیرونی ممالک خصوصا امریکا اورمغربی یورپ میں مقیم خود ساختہ لیڈر حضرات اپنی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔کوئی محب وطن پاکستانی تو امریکی کانگریس سے پاکستان کے خلاف قرارداد پاس ہونے پر خوش نہیں ہوسکتا۔ یہ اعزاز بھی تحریک انصاف کو ہی حاصل ہوا ہے۔

سچ یہ ہے کہ امریکا اور مغربی یورپی ممالک کے پاسپورٹ اور گرین کارڈ ہولڈرز یہ نام نہاد پاکستانی ، پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ اگر یہ لوگ امریکا میں اتنے ہی بااثر اور پاورفل ہیں تو عمران خان کے دور حکومت میں صدر بائیڈن کا فون ہی کرا لیتے۔ عمران خان کو منع کرتے کہ وہ اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکا پر لگا کر دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش نہ کریں۔

بہرحال امریکی ایوان نمایندگان سے پاس ہونے والی پاکستان مخالف اس قرارداد کے سامنے چہرے تحریک انصاف کے لوگوں کے نظر آرہے ہیں لیکن انھیں خفیہ مدد پاکستان دشمن قوتوں کی حاصل ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی اور بھارتی لابی نے درپردہ اس قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرار داد اسرائیلی، بھارتی لابی، زلمے خلیل زاد گروپ اور تحریک انصاف کی مشترکہ کاوش ہے اور ان سب نے مل کر پاکستان کے خلاف یہ قرار داد منظور کرائی ہے۔

آج کل امریکا میں انتخابات کا موسم ہے۔ ہر طرف ایک انتخابی ماحول بنا ہوا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ سب ایک دوسرے کے دست و گریبان ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سزائیں اس وقت امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صدر جو بائیڈن دوبارہ منتخب ہو سکیں گے یا نہیں، امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی لیے اس وقت عالمی سطح پر امریکا کی کوئی خارجہ پالیسی نظر نہیں آرہی۔ غزہ سے لے کر دیگر اہم معاملات میں اس وقت امریکا اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر رہا۔ پوری دنیا امریکا کے نئے انتخابات کی طرف دیکھ رہی ہے۔

11جولائی کو ٹرمپ کو سزا سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ تو سزا سننے کے بعد بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ امریکا میں پاکستان جیسا نا اہلی کا کوئی قانون نہیں۔ اس لیے وہاں سزا یافتہ بھی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ آپ جیل سے بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ آپ جیل سے صدر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس قرارداد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ کے ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر دونوں جماعتیں ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

دوستوں کو یہ بات سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی قرارداد نان بائنڈنگ کہلائی جاتی ہیں ۔ امریکی آئین اور قواعد کے مطابق کانگریس کی منظور کردہ ایسی قراردادیں امریکی صدر یا امریکی حکومت کو کسی کارروائی کے لیے نہیں بھیجی جاتیں۔ یہ قرارداد بھی امریکی حکومت کو نہیں بھیجی جائے گی۔ اس قرارداد کی کوئی مشاورتی حیثیت بھی نہیں ہے۔ یہ منظوری کے بعد ریکارڈ میں رہے گی لیکن کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے کہیں نہیں بھیجے جائے گی۔ یہ پاکستان کو بھی نہیں بھیجی جائے گی۔ یہی امریکا کا آئین اور قانون ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک خبر تک تو اس کی اہمیت ہے لیکن اس خبر سے آگے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف امریکا کوئی کارروائی یا قانون سازی شروع کر دے گا۔ جو لوگ امریکی نظام حکومت اور آئین کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امریکا میں کانگریس اور حکومت الگ الگ باڈیز ہیں۔ امریکی صدر، اس کی کابینہ اور سرکاری اہلکار کانگریس کے رکن نہیں ہوتے۔ پاکستان کے پارلیمانی جمہوری نظام میں وزیراعظم قومی اسمبلی کے رکن ہوتے ہیں۔ امریکا میں ایسا نہیں ہے ۔

کیا امریکی کانگریس کی یہ قرارداد پاکستان کی سفارتی ناکامی قرار دی جا سکتی ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ حکومتیں حکومتوں کے ساتھ سفارت کاری کرتی ہیں۔ پاکستان کی سفارتی لابی امریکی حکومت کے ساتھ انگیج ہے۔

کانگریس مینزکے ساتھ سفارت کاری کم ہی کی جاتی ہے۔ کانگریس کے ارکان سے ملاقاتیں ضرور ہوتی ہیں۔ لیکن امریکا میں لابنگ کرنا ایک مہنگا کام ہے،اس کے لیے لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، یہ لابنگ فرمز لاکھوںکروڑوں ڈالرز معاوضہ لیتی ہیں اور شاید پاکستان کے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں کہ فی الحال کانگریس ارکان کے ساتھ لابنگ کرے۔ تحریک انصاف نے اقتدار سے نکلنے کے بعد امریکا میں متعدد لابی فرموں کی خدمات بھی لی ہیں۔

ان لابی فرموں نے امریکی کانگریس اور چند کم اہم سابق اہلکاروں سے تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے حق میں بیان دلوائے ہیں۔ اس کے لیے زلمے خلیل زاد کی مثال ہی کافی ہے لیکن ان بیانات کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ریاست پاکستان کو علم ہے کہ یہ بیانات کیسے دلوائے جاتے ہیں اور امریکی حکومت ان بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ ان کا امریکی حکومت کی پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جہاں تک پاکستان میں عام انتخابات کا معاملہ ہے۔امریکی حکومت پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے انتخابی نتائج کو قبول کر چکی ہے۔ اسی لیے صدر بائیڈن وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارکباد کا خط لکھ چکے ہیں۔ صرف امریکا ہی نہیں پوری دنیا نے ان انتخابات کو قبول کیا ہے۔ اس لیے جب حکومتیں نتائج قبول کر لیں اور نتائج کے بعد بننے والی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیں تو ایسی قراردادوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

ایک اور موازنہ بھی دیکھ لیں اور اپنے ملک سے محبت بھی دیکھ لیں۔ امریکی بھارتیوں نے امریکی کانگریس میں بھارتی آئی ٹی انجینئرز کے حق میں قرارداد منظور کرائی ہے جب کہ ہم نے اپنے ہی ملک کے خلاف قرارداد منظور کرائی ہے۔ حالانکہ بھارتیوں کو بھی اپنے ملک کی حکومتوں سے بہت شکایات ہیں۔ وہ لوگ بھی مودی سے ناراض ہیں۔ لیکن وہ اپنے گندے کپڑے بیرون ملک نہیں دھوتے۔ وہاں وہ بھارت کے لیے اکٹھے ہیں۔ ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک کی اندرونی سیاست میں اتنا الجھادیا ہے کہ پاکستانیوں کا ایک گروہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر تل گیا ہے ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس