کون ہے جینٹ کلر انجینئررشید؟ … ( 2 )… تحریر : افتخار گیلانی


ا سکے خلاف 1990 سے 2003 انہوں نے کئی بار قانونی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی۔ خود ان کے مطابق لنگیٹ کے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے صبح سویرے تین بجے ہی ہاتھوں میں لالٹین لے کر 18کلو میٹر لمبی سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے۔ اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو اپنی باری پر حاضر ہوناپڑتاتھا۔ گاؤں جس قدر بڑا یا چھوٹا ہو تا تھا اسی قدر دیہی باشندوں کی باری جلدی یا بدیر سے آیاکرتی تھی۔اسکا نام کانوائے ڈیوٹی رکھا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق رات یا صبح کے تین بجے پہلے سے مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں مرٹ گام ، قلم آباد ، ھرل ، کوٹلری ، چھوٹی پورہ اور لنگیٹ کے کیمپوں سے متعلقہ گاؤں کی ٹولی کے نزدیک لگ بھگ 300فٹ کی دوری پر محوسفر ہوتی تھیں تو قافلے کو کوئی فوجی جوان زور سے حکم دیتا تھاکہ وہ بندروں کی طرح ہوا میں کئی چھلانگیں ماریں تاکہ وردی پوشوں کو یہ اطمینان حاصل رہے کہ قافلہ کانوائے ڈیوٹی دینے والوں کا گروپ ہے اور یہ کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ نہیں ہے۔ چند چھلانگیں مارنے کے بعد جب فوجی جوان مطمئن ہوتے تھے کہ اچھل کود کرنے والے گاؤں والے ہیں، تو ان کو فوجی پارٹی کے آگے آگے جان ہتھیلی میں لیکر چلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ، باریک بینی سے اس بات کا پتہ لگانا پڑتا تھا کہ کہیں جنگجوؤں نے بارودی سرنگ تو بچھا کے نہ رکھی ہے۔ یہ سلسلہ لگ بھگ 20دیہی بستی سے ہوتا ہوا علاقے کے آخری گاؤں تک جاملتا تھا۔ لگ بھگ صبح 9بجے تک ہر گاؤں کے عارضی فوجی پوسٹ پر فوجی جمعیت پہنچ جاتی تھی۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دارفوجی افسر کا موڈ ٹھیک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لئے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لئے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی ، اس کے بعد متعلقہ کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔ وہاں کوئی حوالداران کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے ڈیپوٹ کردیتاتھا۔ شامت تب آتی تھی جب کبھی سرینگر سے نوگام کی کانوائی راستے میں کسی حادثے یا جنگجوؤں کے حملے کی وجہ سے رات کے دویا تین بجے تک بھی نمودار نہ ہوجاتی تھی اور ان کا انتظار کر رہے یہ دیہاتی اللہ سے جنت مانگتے تھے اور نہ جہنم سے خلاصی کی دعا کرتے بلکہ فکریہ لاحق ہوتی تھی کہ کسی طرح کانوائے صحیح سلامت اپنی منزل مقصود کوپہنچ جائے ۔پھر اگر بانہال سے لے کر ہندوارہ تک کسی جگہ کانوائے کے اوپر کوئی معمولی سا بھی پتھر پھینکا جاتا تھا تو نزلہ ان پر گرایا جاتا تھا۔ قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد اپنی اسی ضدی طبیعت کی وجہ سے جب انجینئر نے روز ہی پر امن طور پر فوجی کیمپ کے باہر دھرنے دینے شروع کئے اور کبھی سرینگر میں ، تو کبھی بارہمولہ میں اور اس جبری مزدوری کی کہانیاں میڈیا میں بھی چھپنے لگیں، تو اس کو موقوف کرادیاگیا۔ یہ اس علاقے کے مکینوں کیلئے ایک بڑی راحت تھی۔کپواڑہ یا دیگر کسی بھی علاقے کا کوئی بھی اسمبلی ممبر اس قدر رعایت اپنے ووٹروں کو دینے میں ناکام رہے تھے۔اس میں کامیابی کے بعد اس نے اپنا رخ علاقے میں کورپشن کو ختم کرنے کیلئے موڑا۔لوگوں کو تاکید کی گئی تھی، کہ جب بھی کوئی سرکاری اہلکار پیسے کے بدلے کام کرنے پر اصرار کرے، تو فورا انجینئرکو فون پر مطلع کرے۔ اس کیلئے اس نے باضابط ایک گروپ بنایا ہوا تھا۔ منفرد انداز کے حامل، اکثر وہ اپنے حلقے کے دور دراز دیہاتوں کا سفر کرتے تھے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وہ احتجاج کی قیادت کرتے تھے۔ تعمیراتی کاموں کے مقامات کا دورہ کرکے ان کو مکمل کرنے تک انتظامیہ کو پاوں پر کھڑا رکھتے تھے۔ عوامی نمائندے کے عہدے کو انہوں نے ایک نئی تعریف دی ۔ اس لئے 2010اور پھر 2016میں کشمیر میں ایک بار پھر انتفادہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کیلئے جلسے جلوس تو نکالے ، مگر اس علاقہ پر امن رہا۔ اس کا کریڈیٹ سیکورٹی فورسز اور حکومت دونوں رشید کو دیتی تھیں۔ شاید کم ہی افراد کو معلوم ہوگا کہ 2012میں جب دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی، تو اس کے کئی لیڈران نے اس کا خاکہ رشید کے حلقہ لنگیٹ پر تیارہی کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلی منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کیلئے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔اسی کارکردگی کی وجہ سے وہ دوبارہ 2014 میں اسمبلی کیلئے منتخب ہوگئے۔ خیر اس بار شمالی کشمیر کے 18 اسمبلی حلقوں میں 14میں انجینئر نے واضح برتری حاصل کی ہے، اس لئے اب تمام نگاہیں اسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات پر ہے۔ نئی حد بندی کی وجہ سے اب جموں و کشمیر اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد نوے ہے۔ عمر اور سجاد کے برعکس، جیل میں بند انجینئر کے بیٹے 23 سالہ ابرار رشید نے ایک مختصر مہم کی قیادت کی۔ اس کی ایک سادہ سی التجا تھی کہ اگر آپ میرے والد کو ووٹ دے سکتے ہیں جو دو بار اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کر چکے ہیں تووہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔انتخابی مہم کے لیے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات کے ذریعے ہر چیز کا انتظام کیا۔ جہاں آجکل کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ ہوتے ہیں، ان کی پارٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوری مہم پر صرف27 ہزار روپے خرچ کئے، جس سے ایک گاڑی کا پٹرول خریدا گیا۔ باقی خرچ لوگوں نے خود اٹھائے۔ اس انتخاب کو لیکرآنجہانی جارج فرنانڈیز یاد آتے ہیں ۔بطور ٹریڈ یونین لیڈر اپنے پہلے انتخاب میں انہوں نے 1967 میں ممبئی میں بس دس ہزارروپے کے فنڈسے کانگریس کے ایک قد آور لیڈر ایس کے پاٹل کر ہرایاتھا۔ تمام جماعتیں انجینئر کو بھول چکی تھیں۔ اس کی گرفتار ی کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا تھا۔ قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی کے مطابق رشید کو منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر پانچ سالوں سے کیس کی ٹرائل ہی نہیں ہو رہی ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92