آواز دوست میں مختار مسعود نے لکھا، بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد حمید احمد خان، شیخ منظور الہی، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر آفتاب احمد اور مختار مسعود کی نثر اس روایت کی توسیع تھی جس کی بنیاد 19ویں صدی میں غالب نے رکھی۔ مختار مسعود کا یہ جملہ بھی تخلیقی صناعی کا عمدہ نمونہ ہے اگرچہ اپنے پیچھے سوال چھوڑ گیا۔ انعام دینے والی مسندِ اختیار کی نشان دہی نہیں کی اور یہ بھی وضاحت نہیں ہو سکی کہ کس کا جرم قابل سزا ٹھہرتا ہے، فرد یا اجتماع۔ ہمارے سیاہ بخت منطقے پر تو معلوم تاریخ میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا جب فرد کو یہاں کے سیاہ و سفید میں دخل رہا ہو۔ سزا البتہ خاک نشینوں کے حصے میں آئی۔ ایک مثال دیکھئے۔ مولوی فضل حق 27 اپریل 1962 اور مولوی تمیز الدین 19 اگست 1963 کو رخصت ہوئے۔ حسین شہید سہروردی 5 دسمبر 1963 اور خواجہ ناظم الدین 22 اکتوبر 1964 کو وفات پا گئے۔ گویا کوئی دو برس میں مشرقی بنگال کے وہ سب زعما اٹھ گئے جن سے قائداعظم کا پاکستان متحد رکھنے کی امید کی جا سکتی تھی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان برسوں میں پاکستان پر ایوب خان کا طوطی بول رہا تھا اور یہ سب سیاسی رہنما گوشہ گمنامی کی نذر ہو چکے تھے۔ مختار مسعود احتیاط پسند تھے۔ زمانہ طالب علمی میں کبھی پرجوش رہے ہوں گے، پاکستان میں انہوں نے قوم کے خلاف کسی جرم پر آواز نہیں اٹھائی۔ چنانچہ ہم نے ایک ایسا وزیراعظم بھی دیکھا جو کسی بینک سے تمسک اضطراری کے عوض درآمد کیا گیا اور ہم بندگان خاک بسر پر حکمرانی کر کے یوں غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ گدھے کی نشان دہی تو مشکل ہے یہ بہرصورت معلوم ہے کہ گدھے کی سزا قوم کو ملی۔
دو روز پہلے قومی معیشت کا قوم پر مسلط کیا گیا میزانیہ اسی سزا کی توسیع ہے۔ نان جویں کو محتاج، کتاب و قلم سے محروم اور احوال فردا سے بے خبر پچیس کروڑ بے دست و پا مخلوق کی معیشت طے پا رہی تھی تو برسراقتدار جماعت کے صدر نواز شریف ایوان میں تشریف نہیں رکھتے تھے۔ حکومتی اتحاد کی دوسری بڑی جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو نے ایوان میں قدم رنجہ نہیں فرمایا۔ کچھ دیر گیلری میں جھلک دے کرآرام فرمانے محل سرا چلے گئے۔ وفاقی بجٹ تقریر کے دورانسنی اتحاد کونسل نامی کسی سیاسی دستکاری کے نمونے غل غپاڑہ کر رہے تھے۔ اٹھارہ کھرب میں سے کوئی پونے دس کھرب قوم کے نام پر عشرہ در عشرہ لئے گئے قرضوں کی مد میں چلے جائیں گے جنہیں واپس کرنے کی کوئی سبیل نہیں سوچی گئی۔ یہ قرضے بھی گویا تقسیم ہند میں ہاتھ آنے والی متروکہ املاک تھیں جنہیں باوا کا مال سمجھ کے ڈکار لیا جائے گا۔ کبھی پچھتر برس میں سال بہ سال بڑھنے والے ان قرضوں کی تفصیل دیکھئے گا اور پوچھئے گا کہ یہ قرضے کہاں صرف ہوئے۔ بجٹ میں ملک پر قابض اشرافیہ کو بدحال معیشت کی بحالی میں کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ انتظامی اور غیرترقیاتی اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ تنخواہ دار طبقے پر دوہرا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہیں اضافی ٹیکس کے علاوہ سبزی ترکاری سے لے کر کپڑے لتے تک ہرخریداری پر جی ایس ٹی کی صورت میں شہری ہونے کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ یہ بجٹ ملکی معیشت میں استحکام نہیں لا سکے گا۔ معاشی نمو کی ضمانت نہیں دے سکے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب ادھورا رہے گا۔ خارجی دنیا میں ہماری ایسی ہی توقیر ہوگی کہ ہمارا وزیراعظم قریب ترین دوست ملک سے ایم او یوز کا پلندہ بغل میں دبائے واپس لوٹے گا۔ قوم آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کو کوس رہی ہے اور یہ نہیں سمجھتی کہ آئی ایم ایف کوئی قوم نہیں، ایک مالیاتی ادارہ ہے جو سود پر قرض دیتے ہوئے واپسی پر آنکھ رکھتا ہے۔ دنیا کووڈ 19، یوکرین جنگ اور موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھرا داس سے قرض لیا، ادھر درباری مل کو مارا، ادھر خوب چند سکھ چین کی کوٹھی جا لوٹی۔ سرد جنگ کی کھڑکی بند ہوئے تیس برس گزرگئے۔ دنیا دہشت گردی کے مرحلے سے آگے نکل چکی۔ ہمارے پاس ایک ہی اثاثہ ہے، تیس برس سے کم عمر کی ساٹھ فیصد آبادی۔اس کلبلاتی مخلوق کو تعلیم یافتہ اور ہنرمند انسانی سرمائے میں ڈھالنے کے احساس کا یہ عالم ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف کے شعبہ تعلقات عامہ نے پنجاب حکومت کے پہلے سو روز پر جو کتابچہ شائع کیا ہے اس میں سرے سے تعلیم کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
درویش نے گزشتہ عرض داشت میں سرگوشی کی اجتماعی نفسیات پر کچھ بات کی تھی۔ آج عرض کرتا ہوں کہ دن ڈھلے آپ کسی بھی سڑک پر نکلیں اور اپنے اردگرد پیدل یا سوار مخلوق پر کچھ غور فرمائیے۔ دو اشارے میں عرض کرتا ہوں۔ ایک تو آپ کو کوئی نوجوان چہرہ ہنستا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ پختہ عمر کے افراد پر پریشانی کا تشنج بالکل واضح ہو گا۔ دوسرے یہ کہ سوائے اپنے کسی جاننے والے کے، پاکستان کے شہری ایک دوسرے سے بیگانہ محض ہو چکے ہیں۔ ہم وطن ہونے کے ناتے ایک دوسرے سے تعلق، ہمدردی اور اجتماعی ذمہ داری کا کوئی نشان آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ ریاست قوم کو بلڈوز کر رہی ہے اور شہری ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے اپنا راستہ بنانے کی فکر میں ہیں۔ برادر یاسر پیرزادہ سے استاذی سلیم مظہر تک یہی تلقین کرتے ہیں کہ مایوسی نہ پھیلائی جائے۔ کون کمبخت مایوسی پھیلانا چاہتا ہے۔ ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں۔ اور جاں گداز غم یہ ہے کہ جہاں معیشت اور تعمیر قوم کے مسائل پر توجہ ہونا چاہیے تھی، وہاں اپنے خود کاشتہ تجربے کی خاردار ٹہنیوں میں الجھا دامن چھڑایا جا رہا ہے۔ پاؤں سے کانٹا نکالتے ہیں تو آستیں الجھ جاتی ہے۔ پاپوش کی خبر لیتے ہیں تو دستار پھسل جاتی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہر اب تک پرانے پہرے میں چل رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ