ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ : تحریر حفیظ اللہ نیازی’’


NRO نہیں دوں گا،NRO نہیں لونگا۔ خودکشی کرلونگا IMFکے پاس نہیں جاؤنگا ،IMF کے پاس جانا پڑیگا۔ میری حکومت گرانا امریکی سازش، میری حکومت گرانا جنرل باجوہ کی سازش تھی۔ چور ڈاکو سیاستدانوں کیساتھ نہیں بیٹھوں گا، ملک کیلئے سیاستدانوں کیساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں ۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں تضاداتی بیانات سے عمران سیاست مسجَّع و مُقَفّٰی ہے۔عمران خان کی بدقسمتی کہ اتنی بڑی اور مضبوط سیاست کی موجودگی، کوچہ سیاست سے نابلد ، سیاسی حکمت عملی اور تدبر سے خالی ہے۔ بلاشبہ دلیری ، لڑنے میں مہارت اور دروغ گوئی نے سیاسی مقبولیت دے رکھی ہے۔ کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟25 اپریل 1996ء( PTI کا یوم تاسیس ) تا 13 جون 2024، مجال ہے ایک سیاسی فیصلہ جس پر آج اِترانا بنتا ہو۔ کوئی ایک فیصلہ بھی جس میں امابعد پچھتاوا، تاسف ، رجوع ، یوٹرن نہ ہو ۔ بندہ 28 سال بھرپور سیاست کرے اور سیاسی نامہ اعمال حکمت عملی اور تدبر سے خالی ہو ۔ بیتے دنوں میں ، عمران خان سے مثالی قربت ، اس ضمن میں 2013ء تک درجنوں بار اپنی تشویش کا اظہار کیا، توجہ دلائی کہ ہماری سیاست عقل، دانش، حکمت و تدبر سے خالی ہے، نظمِ سیاست میں خواری آپکا مقدر رہنی ہے۔ PTI جب چند درجن تک موقوف تھی یا اب جبکہ لاکھوں ووٹر سپورٹر، جماعت کا اندرونی خلفشار، بدنظمی، بے ترتیبی، کرپشن، نااہلی ضرب المثل ہے ۔ میرے توجہ دلانے کے جواب میں نوازشریف اور بینظیر کی نالائقیاں، نااہلیاں بتاتے ۔ میری فرسٹریشن کہ موصوف اپنے خالی سیاسی خانہ یا احساسِ ابتری و کم مائیگی کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔ سیاسی حکمت اور تدبر کی غیر موجودگی آج سوہان روح ہے۔ گِھسی پٹی بیان بازیوں پر مشتمل تکرار کیساتھ نعرے 28 سال سے سیاسی سفر کا زادِراہ ہیں۔ کسی موقع پر بھی حکمت عملی، تدبر و تدبیر کیساتھ سیاسی حریفوں کو نہ پچھاڑ سکے ۔ گالم گلوچ ، مبالغہ ، غلط بیانی، اپنی جنت اوڑھنا بچھونا بناچکے ہیں۔ اقتدار میں آئے توایک ہی رٹ کہ NRO نہیں دونگا، باہر ہوئے تو رٹ NRO نہیں لوں گا ۔ تضاد اتنا کہ نواز شریف کی جیل سے بہ اہتمام لندن روانگی ہو یا 2019ءمیں جنرل باجوہ کی توسیع مدت ملازمت ، ایسے تمام NRO کابینہ کے باجماعت فیصلے ، عمران خان کی مہر تصدیق ثبت تھی ۔ درجنوں مثالیں، کالم متحمل نہیں ہو سکتا ۔ قطع نظر اقتدار کیلئے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ سے NRO لینے کیلئے رالیں ٹپکا ئیں ۔تحریک عدم اعتماد آتے ہی، جنرل باجوہ سے مفاہمت NRO کیلئے ہمہ وقت تیار پایا ۔

آخر کوNRO کس بلا کا نام ہے؟ جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے جب بینظیر بھٹو سے مفاہمت کی توNRO نام سامنے آیا ۔ قطع نظر، جرنیل جب بھی سیاستدانوں کیلئے تھوڑی بہت گنجائش نکالتے ہیں تو اگرچہ مفاد اپنا عملاً اپنا ہی مکو ٹھپتے ہیں۔ بیشمار مثالیں، جنرل ایوب خان کی گول میز کانفرنس یا جنرل ضیاء الحق کی بینظیر سے معاملہ فہمی یا جنرل مشرف کی بینظیر سے مفاہمت ( NRO ) یا جنرل باجوہ کا PDM سے مک مکا وغیرہ، ایسے تمام جرنیلوں کیلئے “واٹر لو” ثابت ہوئے ۔سیاست میں مفاہمت RECONCILIATION کو ساؤتھ افریقہ نے متعارف کرایا ۔ یاد رہے کہ سفید فاموں نے افریقی سیاہ فام باشندوں کو 90ء کی دہائی تک جانوروں سے بدتر بنا رکھا تھا ۔1993ء میں جب حالات نے پلٹا کھایاتو 1994 ء میں ملک حقی سچی مالکوں کے حوالے کرنا پڑا ۔ نیلسن منڈیلا پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے ۔ پہلا کام کشت و خون اور بدلےکی سیاست کے سدباب کیلئے ایک “TRUTH And RECONCILIATION COMMISSION” بنایا۔ یک سطری ایجنڈا ، “سچ بولو اور معافی پاؤ” یعنی جرائم کا اعتراف اور گلو خلاصی ۔جہاں کمیشن کا قیام ایک احسن قدم وہاں سربراہ کے چناؤ میں بہترین شخص کی صورت میں بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو دستیاب ،ساکھ ، اخلاق ، سچ ، ذہانت کے اعلیٰ ارفع مقام پر فائز تھا ۔ ” نوبل انعام ” ملا کہ عظمت کا اعتراف تھا ۔ جنرل مشرف نے یہی سے لفظ مفاہمت پکڑا اور اپنے مفاد اتی گھناؤنے ایجنڈے کو پروان چڑھایا ۔ قومی مفاہمتی بل ( NRO ) بنا ڈالا ۔ عمران خان نے اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کیلئے تندہی سے اخلاق ، کردار ، ساکھ سب کچھ جھونک ڈالا ۔ بدقسمتی ! 28 سالہ سیاسی زندگی میں اپنے ہر فیصلہ سے برأت لی ، رجوع کیا، یوٹرن لیا ، ہاتھ ملے ، ہر فیصلہ پر پچھتانا پڑا ۔” ہم کوئی غلام ہیں ، NRO ازبر ، مخالفین پر تہمتیں و الزامات” ، جہاں کہیں سیاسی فائدہ سامنے ، تن من دھن لگا ڈالا ۔ ایک وقت ، جنرل باجوہ کو گالیاں اور پھر مناجات، منت سماجت، ملاقاتیں کہ ہوس اقتدار میں ہمیشہ اصول پس پشت ڈالے ۔ جنرل عاصم کیخلاف بہیمانہ مہم بھی اور ملاقاتوں کی تڑپ بھی۔ ایک عرصہ سے بیانیہ یہی کہ “جرنیلوں سے بات چیت کروں گا سیاستدانوں سے ہرگزنہیں ” ۔گردش ایام ، اچکزئی صاحب ضرورت بنے تو سامنے دوزانو بیٹھ گئے ۔ حیرت نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی دہلیز پر ماتھا پٹک دیا۔2011ء میں فضل الرحمن کیخلاف میں نے بات کرنے سے روکا مگر ناکام رہا ۔ دو دن پہلے گوہر خان ، علی محمد خان وغیرہ جب جیل سے پیغام لائے کہ “عمران خان نے سارے سیاستدانوں سے ہر قسم کی بات کی اجازت دے دی‘‘، مجھے عمران خان پر ترس آیا ۔

28 سالہ سیاسی زندگی میں حصولِ اقتدار کیلئے ہر روپ دھارا، کئی پینترے بدلے ۔ وزیراعظم بنے توNRO نہیں دونگا، مقصد ایک کسی طریقہ سے جنرل باجوہ سارے مخالفین کوسُولی پر چڑھا دے ، ’’سُنجیاں ہو جان وطنی گلیاں تاکہ باجوہ کا مہرہ عمران دندنائے‘‘۔شروع دن سے اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو جب بھی راندہ درگاہ بنایا ، دلجمعی سے انواع اقسام کے سیاستدانوں کے پہلو میں بیٹھا دیکھا گیا ۔ 1996 تا 2024 بے شمار مثالیں موجود ، مئی 2006میں میثاق جمہوریت پر لندن کانفرنس میٹنگ میں عمران خان ، نواز/ بینظیر کے پہلو بہ پہلو موجودبلکہ میثاق جمہوریت کی توثیق کرنیوالوں میں شامل تھے ۔ہرج نہیں کیونکہ سیاستدان صرف سیاستدان کیساتھ بیٹھ کر اور مشترکہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا سکتا ہے۔ میثاق جمہوریت پر ہی تو مشرف نے بینظیر سے رابطے شروع کر دیئے تھے۔2014 میں 126 دن کے دھرنے پر عمران خان بے سراغ و پریشان کہ ناکام دھرنے سے جان کیسے چھڑوائی جائے۔ سانحہ APS نعمت غیر مترقبہ اور غیبی مدد، جبہ برقعہ ٹوپی سنبھالی اور دھرنا کو ترک کرنے میں لمحہ ضائع نہ کیا۔ اگلے دن نواز شریف کیساتھ پشاور میں براجمان تھا۔ 1977ء میں ملکی سیاسی افراط و تفریط جنگی صورتحال اختیار کر چکی تھی۔ ایسی دھینگا مشتی اور کامیابی سے چلتی تحریک نظام مصطفیٰ کی موجودگی میں ذوالفقار علی بھٹو اور اپوزیشن PNAرہنما جڑ کر بیٹھ گئے۔ سمجھوتا طے ہوا ہی چاہتا تھا کہ مارشل لا لگ گیا ۔ عمران خان کی بالآخر سیاستدانوں کیساتھ بیٹھنے کی تمنا خوش آئندضرور، حیران کُن نہیں۔ سیاسی ناعاقبت اندیشی، نااہلی ، تدبر و تدبیر کی غیر موجودگی اور بہیمانہ ہوس اقتدار ہمیشہ آڑے رہے، دیر کر دیتا ہے۔ نہ صرف دیر ہو جاتی ہے، حاصل حصول کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ