شامتِ اعمال ما صورتِ کرکٹ گرفت
افراتفری اور بے بسی کے عالم میں ایک کھیل ہی تھا جس سے قوم کو چند لمحوں کی مسرت مل جاتی تھی۔ شہر شہر گلی گلی آتشبازی، جوش و جذبہ۔ ناساؤ کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم نیو یارک ویسٹ بری میں یہ خوشی بھی ہم سے چھین لی گئی۔امریکہ جیسی بالکل نومولود ٹیم جو ابھی جھولنے میں تھی۔ اس سے جب ہار گئے تو بھارت جیسی تجربہ کار ٹیم سے جیتنے کیلئے دعا تو کی جارہی تھی مگر جیتنے کی کوئی امنگ نہیں تھی۔
کرکٹرز کا کیا قصور ہے۔ ہم پاکستانی ایک انتہائی حساس اور اہم محل وقوع پر آباد ہونے۔ سونا تانبا، قیمتی دھاتیں پتھر، زرخیز اراضی،جفاکش افرادی طاقت رکھنے کے باوجود ہر شعبے میں ہار رہے ہیں۔ ہمیں جیتنے سے ہی نہیں، جیتنے کی آرزو سے بھی روکا جاتا ہے۔ ہم کسی میدان میں بھی اتریں۔ اپنے علاقائی، صوبائی، مسلکی ،لسانی تعصبات کی زنجیریں ہمارے پاؤں میں پڑی ہوتی ہیں۔ اپنے وسائل اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنے کی عادت ہی ختم ہوچکی ہے۔ ہم اپنی علم و فضل کی، عزم و ہمت کی ثقافت و تمدن کی صدیاں ساتھ رکھنے کی بجائے اپنی نا اہلی، مداخلتوں، انحطاط کے 40 سال ذہن پر سوار رکھتے ہیں۔ ایسی شرمناک ہار پر تو اداروں کے سربراہ،ٹیم کے کپتان، ذمہ داری قبول کرکے مستعفی ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ صورت حال کو سنبھالیں۔ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کہتے ہیں۔ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔
ہائے اس زد و پشیماں کا پشیماں ہونا
اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں ٹیم بھیجنے سے پہلے آپ کو اگر ٹیم میں ایسی خامیوں کا علم تھا تو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ ایسی ٹیم رسوائی کا موجب ہی بنے گی، تو یہ سرجری ہوجانی چاہئے تھی۔ واہگہ سے گوادر تک کی زمینیں،موسم، حالات سب کہہ رہے ہیں کہ کرکٹ ہی نہیں ہر کھیل کی ٹیم میں سرجری کی ضرورت ہے۔ فارم 47والی سرجری نہیں، اصلی والی سرجری۔ میرٹ، انصاف، حق و صداقت والی۔ انڈیا سے ہم ہر کھیل میں پیچھے رہ رہے ہیں، پسپائی کو کوئی تو روکے۔
…….
یہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اسٹاف کالج کا ایئرکنڈیشنڈ ہال ہے۔چیئرمین کے پی ٹی سیدین رضا زیدی سمیت سارے اعلیٰ افسروں کا انہماک دیدنی ہے۔ خطّے کی، ایشیا کی، یورپ امریکہ کی تازہ ترین صورت حال پر گفتگو ہورہی ہے۔ فلسطین کا نوحہ بھی، مگر اس المیے میں حماس کی حکمتِ عملی کی کامیابی کے اشارے بھی ہیں کہ اسرائیل کے ایک بھیانک خواب کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید غزل سرا ہیں۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مشاہد حسین سید سدا بہار پاکستانی ہیں۔ ہم ان کی تحریر، تقریر 70 کی دہائی سے سنتے آرہے ہیں۔ آمریت ہو جمہوریت۔ وہ اس طرح رفتار عالم سے اپنے قاری اور اپنے مخاطب کو آگاہ کررہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں نیک و بد سمجھاتے ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ انہیں پاکستانیوں سے، قومی اسمبلی سے بھی خطاب کرتے سنا ہے۔ ایوان بالا میں بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے مصروف استدلال دیکھا ہے مگر میں پہلی بار ان کیلئے قلم اٹھارہا ہوں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہم اس لب و لہجے کو ترس گئے ہیں۔ شکریہ تو ہمیں سیدین رضا چیئرمین کے پی ٹی کا کرنا چاہئے کہ وہ بندرگاہ کو اس کا تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی کردار واپس دلواکر بلیو اکنامی(بحری معیشت) سے ہمیں خوشحال کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مشاہد صاحب کی تقریر سے محروم اور بہت سے تازہ ترین اعداد و شُمار، رجحانات سے بے خبر ہی رہتے اگر یہاں رمضان بلوچ کی کتاب ’’ایک لاپتہ شہر کا سراغ‘‘ کی تقریب پذیرائی کا اہتمام نہ کردیا ہوتا۔ رمضان بلوچ، ڈاکٹر سید جعفر احمد اور میں اس کتاب کے حوالے سے موجود ہیں۔ مشاہد چین کی ’ایک پٹی۔ ایک سڑک‘ پر پیشقدمی ۔ ہماری سست روی سے بھی ہمیں آگاہ کررہے ہیں۔ وسطی ایشیا میں کیا رجحانات ہیں۔ بھارت کن شعبوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ جس کے ہم 1947سے اتحادی ہیں۔ سیٹو۔ سینٹو کے رکن بھی رہے ہیں۔ پشاور سے قریب بڈھ بیر سے ہی طیارہ سوویت یونین کی جاسوسی کیلئے اڑا تھا۔ مگر امریکہ نے ہمیں اسٹیل مل دی نہ بھاری صنعتوں کا کمپلیکس۔ اسٹیل مل روس نے دی۔ بھاری صنعتیں بنانے کے کارخانے چین نے دیئے۔ پاکستان نے بھی چین کی عالمی اداروں تک رسائی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کیلئے وہ سہرا صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحییٰ خان، سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان اور امریکہ میں سفیر آغا ہلالی کے سر باندھ رہے ہیں۔ صرف ماضی نہیں۔ وہ حال کی تصویر بھی دکھارہے ہیں ،مستقبل کے امکانات سے بھی خبردار کررہے ہیں اور پاکستان کا روشن چہرہ بھی سامنے لارہے ہیں کہ اب بھی پاکستان کی اہمیت ہے۔ افغانستان کے حوالے سے،انڈیا کی مناسبت سے۔ ایک خاتون آفیسر نے بہت معروضی شعور کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سسٹم کیوں نہیں ہے۔ مشاہد صاحب نے اسکو بہت اہم سوال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خرابی یہی ہے۔ ایران میں دیکھئے کہ سانحہ ہوتا ہے تو اسی روز مراحل طے ہوجاتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جاتا ہے۔ بھارت میں انتخابات کے مدارج طے کیے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر کوئی اعتراض نہیں ہورہا ہے۔
مجھے تسکین ہورہی ہے کہ ہمارے ہاں احساس زیاں رکھنے والے موجود ہیں اور وہ کھل کر اظہار خیال بھی کررہے ہیں۔ شعلہ بیانی نہیں ہے، دلائل ہیں، اعداد و شمار ازبر ہیں، قرضے کتنے ہیں، کس تاریخ کو کیا ہوا۔ ذاتی الزامات نہ شخصی عداوتیں۔ وہ ایشیائی سیاسی جماعتوں کی بین الاقوامی کانفرنس کے شریک چیئرمین ہیں۔ پاک چین انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین۔ پاکستان افریقہ انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و ترقی کے صدر بھی۔ آج کل کے حکمرانوں ،اعلیٰ افسروں کی تقریروں میں یا ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز سے آپ کے علم میں اضافہ نہیں بلکہ الجھن ہوتی ہے۔ یہاں میں مقرر کے ساتھ ساتھ ان آفیسرز کے انہماک اور دلچسپی کو بھی لائق تحسین سمجھتا ہوں کہ وہ غور سے ایک ایک جملہ سن رہے ہیں۔ اسکے بعد ان کے سوالات بھی جو زیادہ تر خاتون افسروں نے کیے۔ میرے ذہن میں اپنی قوم کا شعور اور ادراک جاگزین ہورہا ہے کہ ہمارے افسر، ہمارے عام لوگ اپنے ملک کا درد رکھتے ہیں۔ ملک کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی ادارہ یہ کوشش کرے کہ عام پاکستانیوں کے خواب، خیالات، درد کو ایک بینک میں جمع کرے۔ اور ہماری فیصلہ سازی ان خیالات کی روشنی میں ہو۔ واہگہ سے گوادر تک ہر پاکستانی کو یہ احساس ہو کہ اس کی سوچ بھی ملکی حکمت عملی میں شامل ہے۔ پھر کسی اسٹیڈیم میں جب ہماری کوئی بھی ٹیم اترے تو وہ تعصبات اور گروپنگ سے آزاد ہوکر جیتنے کیلئے اترے۔ ہمارے پاس وسائل ہیں، صلاحیتیں ہیں مگر ہمیں کوئی نہ کوئی جیتنے سے روکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ