حال ہی میں اختتام پذیر بھارت کے عام انتخابات میں اگر کوئی بڑا الٹ پھیر ہوا، تو وہ وادی کشمیر کے بارہمولہ۔کپواڑہ کے حلقہ سے دہلی کے تہاڑ جیل میں پچھلے پانچ سالوں سے محبوس عبدالرشید شیخ المعروف انجینئر رشید کی کامیابی تھی، جس نے نہ صرف سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ بلکہ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کو بھی ہرایا، جن کے متعلق عام تھا کہ ان کو نئی دہلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ویسے ان انتخابات میں ایک اور الٹ پھیر بھی ہوتے ہوتے رہ گیا، وہ اتر پردیش کی وارانسی کی سیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کا نتیجہ تھا، جو کافی جدو جہد کے بعد کانگریس کے امیدوار اجے رائے سے معمولی فرق سے جیت گئے۔ پیشے سے انجینئر رشید سے میری ملاقات کالج کے دنوں سے ہے۔ پورے شمالی کشمیر میں 90کی دہائی کے اوائل تک دو ہی ڈگری کالج سوپور اور بارہمولہ قصبہ میں واقع تھے ۔ اس لئے گریز، کرنا ، لولاب یعنی دور دراز علاقوں سے طالب علم کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے ان قصبوں کا رخ کرتے تھے۔ رشید نے بھی لنگیٹ، ہندواڑہ سے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سوپور کالج میں داخلہ لیا تھا۔ جب میں کالج پہنچا، تو میرے اسکول کے تقریبا سبھی ساتھی میڈیکل یا انجینئرنگ کے شعبوں میں ایڈمیشن کی وجہ سے سرینگر یا بھارت کے دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔چونکہ رشید ہاسٹل کے بجائے ہمارے ہی محلے میں اپنے رشتہ دار کے ہاں مقیم تھا، اسلئے کالج کا ساتھی ملنے کی وجہ سے میرا اکیلاپن جلد ہی دور ہو گیا۔ وہ عبدالغنی لون کا نہ صرف سیاسی بلکہ ان کے، ان دنوں کے بائیں بازو کے نظریات کا بھی انتہائی معتقد تھا۔ اس لئے سوپور میں چونکہ جماعت اسلامی نظریاتی طور پر حاوی تھی، اس کا ساتھیوں کے ساتھ خاصا و مباحثہ ہوتا تھا ۔ مگر اس کی بحث و دلائل دینے کی لامتناہی برداشت اس کے وسیع مطالعہ اور ضدی طبیعت کو ظاہر کرتی تھی۔ خیر گریجویشن کے بعد میں جرنلز م کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے دہلی آگیا ، کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہو گئی اور ایک انارکی کی صورت حال کی وجہ سے سبھی تعلقات منقطع ہوگئے۔ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ گریجویشن کے بعد اس نے سرینگر میں پالی ٹیکنک کالج میں داخلہ لیا ہے۔ ان دنوں سرینگر سے طاہر محی الدین کی ادارت میں ہفتہ وار چٹان خاصا مقبول اخبار تھا، جس کے اداریہ ، تحقیقاتی رپورٹیں اور تجزیاتی کالم کشمیری صحافت کی جان ہوتے تھے۔ ان میں انجینیر رشید کے قلم سے نہایت ہی پرمغز تجزیاتی کالم شائع ہوتے تھے۔ بھارت۔پاکستان اور کشمیر معاملات میں ایک طرح سے حرف آخر اے جی نورانی بھی ان کالمز سے استفادہ کرتے تھے اور فرنٹ لائن اور دیگر تحقیقی مقالوں میں اس کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ چونکہ ان کو اردو پڑھنے میں دقت ہوتی تھی، وہ ممبئی سے جب دہلی آتے تھے، تو چٹان (جو ان کے پاس بذریعہ ڈاک آتا تھا) میں انجینئر رشید کے تجزیاتی کالمز مجھے ترجمہ کرنے کیلئے دیتے تھے یا کسی وقت اپنے سامنے ہی پڑھنے کو کہتے تھے، اور نوٹس لیتے تھے۔ میرے ذہن میں تو کالج کے رشید کی شبیہ دھندلی ہو چکی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ انجینئر رشید کے نام سے وہی شخص چٹان کا کالم نگار ہے۔ ایک دہائی یا اس سے بھی زیادہ جب ایک روز میں سرینگر میں طاہر محی الدین سے ملنے چٹان کے دفتر گیا، تو انہوں نے کمرے میں موجود انجینئر رشید کا تعارف کرایا۔ تب معلوم ہوا کہ شیخ رشید ہی انجینئر رشید ہے۔ انجینئر نگ کی ڈگری لینے کے بعدوہ جموں کشمیر پروجیکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن (جے کے پی سی سی ) میں سول انجینئرہے۔ اس کی نوکری ملنے کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بیکار رہنے کے بعد اس کے علاقہ میںجے کے پی سی سی کسی نالے پر ایک چھوٹا سا پل بنا رہی تھی اور اس کو عارضی طور پر سپروائز بنایا گیا تھا۔ ایک روز کسی عسکری تنظیم سے تعلق رکھنے والے بندوق بردار وںنے چند سیمنٹ کی بوریاں ان کے حوالے کرنا کا مطالبہ کیا۔ اس نے ان کو مہینے کے آخری دن آنے کیلئے کہا، تاکہ جب اس کو مشاہرہ ملے گا، تو وہ سیمنٹ کی بوریوں کے بدلے ان کو نقد میں ادائیگی کریگا۔ وہ پہلے سمجھے یہ کوئی دیوانہ ہے۔ مگرجب اس نے ان کو سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوسکتا ہے ، کیونکہ سیمنٹ کی یہ بوریاں حکومت کی اور عوام کی ہیں، تو انہوں نے اس کو اغوا کیا اور پھر کئی روز بعد کسی نالے کے کنارے ہی اس کو نیم مردہ چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس دوران سپروائز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پل پر کام رک گیا، جس کی شکایت سرینگر میں جے کے پی سی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر کے پاس پہنچی۔ جب اس کو معلوم ہو اکہ کسی عارضی سپروائزر نے سرکاری سیمنٹ کی بوریوں کی خاطر اپنی ہڈیاں تڑوائی ہیں، تو اسکے ضمیر نے اس کو سیدھا اسپتال پہنچا دیا ۔ جہاں اس نے پہلے تو اس واقعہ کی تصدیق کی،پھر رشید کو کہا کہ ٹھیک ہونے کے بعد اس کے دفتر میں آکر اپنی سرٹیفیکٹ وغیرہ جمع کرواکے تقرری کا پروانہ لے کرجائے۔ اس کو ٹھیک ہونے میں چھ ماہ کا وقفہ لگا۔ اسی دورا ن 2008میں امرناتھ زمین قضیہ کو لیکر کشمیر میں محشر برپا ہوگیا تھا۔ اس کے فورا بعد دسمبر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو گیا۔ سجاد غنی لون، جو پہلے ان انتخابات کو لڑنے کیلئے پر تول رہے تھے، نے بعد حریت کا ہی ساتھ دیکر بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ انجینئر لنگیٹ سے انتخابات لڑنے کا من بنا چکے تھے۔ سجاد نے انکو باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ اس علاقہ میں سکیورٹی فورسزاور سرکاری بندوق برداروں نے ان کا ناطقہ بند کرکے رکھا ہوا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے سے ان کو سرکاری تحفظ کے علاوہ سرینگر میں رہائش ملے گی۔جب انہوں نے اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑی تو ان کے پاس انتخابی مہم کے لیے صرف 17 دن باقی تھے۔ اس حلقہ سے انتہائی زیرک سیاسی لیڈران پی ڈی پی کے محمد سلطان پنڈت پوری اور نیشنل کانفرنس کے شریف الدین شارق انتخاب لڑ رہے تھے۔ سال 2005 میں، رشید کو اسپیشل آپریشن گروپ نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد تین ماہ اور 17 دن کے لیے جیل بھیج دیا۔ انہیں کارگو، ہمہامہ اور راج باغ کے انٹروگیشن سینٹر میں خاص ازیتیں دی گئی تھیں۔ بعد ازاں مجسٹریٹ نے ان کے خلاف تمام الزامات کو خارج کر دیا۔بعد میں سرکاری بندوق برداروں کے ایک گروپ نے ان کوحراست میں لیا اور پانچ ماہ کے بعد تاوان ادا کرنے کے بعد رہا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے ان کے والد کو کو گائے، بکری اور جائیداد بیچنی پڑی۔ جب ان انتخابات کے نتیجے آگئے، تو انجینئر رشید نے پنڈت پوری کو 211ووٹوں سے پچھاڑ دیاتھا ، شارق تو تیسرے نمبر پر کافی پیچھے تھے۔ میرا خیا ل تھا کہ یہ ایک بار کی چمک تھی، بار بار کاٹھ کی ہنڈیاں تو نہیں چڑھتی ہیں۔ مگر اس دوران اس نے سیاست کو خاصی سنجیدگی سے لیکر علاقے میں نوجوانوں کا ایک نیٹ ورک بنادیا۔ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ فوج کی طرف سے باشندوں کو جبری بیگار کیلئے لے جانے کا تھا۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز