لکھنو کے ایک نواب صاحب جن کی پرورش کنیزوں اور خواجہ سراؤں کے درمیان ہوئی تھی۔ بہت ہی نازک مزاج ہو گئے تھے۔ ایک دن ان کے محل میں کہیں سے سانپ نکل آیا تو ایک کنیز نے تالی پیٹ کر کہا کہ ارے کسی مرد کو بلاؤ کسی مرد کو بلاؤ تو نواب صاحب بھی تالی پیٹ پیٹ کر کہنے لگے ارے کسی مرد کو بلاؤ کسی مرد کو بلاؤ، تو ایک شوخ سی کنیز نے اٹھلا کر کہا کہ حضورآپ بھی تو مرد ہیں۔ نواب صاحب نے کہا ارے خوب یاد دلایا، اتنے میں سانپ اپنا سر پیٹتا ہوا وہاں سے خود ہی چلا گیا۔
سندھ پولیس کے ایک اعلی افسر نے اپنے بیان میں کہا تھاکہ اسٹریٹ کرائم میں مزاحمت پر قتل اور زخمی کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت نہ کریں ۔ اس بیان پر لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ بالخصوص کراچی میں پولیس اور رینجر کی نفری کی بھرمار ہے اور صوبے اور شہر میں امن و امان کا قیام انہی کی ذمہ داری ہے لیکن ان محکموں کی جانب سے ابھی تک خوب یاد دلایا کا بیان نہیں آیا ہے۔ان کے اپنے خوف کا یہ عالم ہے کہ کراچی میں تمام تھانوں کی دیواریں کسی محفوظ قلعے کا منظرپیش کررہی ہیں اور تو اوررینجز کے دستے بھی مکمل سیکیورٹی میں رہتے ہیں ۔ اس شہر میں اگر کوئی غیر محفوظ ہے تو وہ کراچی کے رہنے والے عوام ہیں۔
اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ 2023 میں 126 افراد ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل ہوئے۔ 2022 میں 111 افراد ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل ہوئے۔ جبکہ جنوری 2024 میں سے مارچ تک 72 گاڑیاں چھینی گئیں اور 442 گاڑیاں چوری ہوئیں۔ اسی عرصے میں ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کے دوران کم از کم 55 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ موبائل فون چھیننے کی صرف مارچ 2024 میں 1808 وارداتیں ہوئی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کراچی کا ہر تیسرا شہری اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو چکا ہے۔ سندھ حکومت کا سیکیورٹی بجٹ
گزشتہ سال سندھ حکومت نے امن و امان کے قیام کے لیے 5۔143ارب روپے کا بجٹ رکھا تھا یعنی ایک کھرب 43 ارب 50 کروڑ روپے ۔ اس کے علاوہ ساڑھے چار ارب روپے ریڈ زون کی حفاظت کے لیے الگ مختص کیے گئے تھے ۔2022 کی بہ نسبت اس بجٹ میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا تھا، 2022 میں یہ رقم ایک کھرب 24 ارب 87 کروڑ روپے تھی۔ گزشتہ سال سندھ سیف سٹیزپروجیکٹ کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور اس سال مزید ساڑھے چار ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ ہے۔ یہ منصوبہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے اس وقت زیر غور ہے۔ اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں ریڈ زون میں 10 ہزار کیمرے لگانے تھے۔لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوسکا کہ سندھ حکومت کے افسران کی جانب سےکہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے کی راہ میں نیب رکاوٹ ہے ۔ جبکہ اس منصوبے پر 10 ارب روپے اور اس کی تیاری پر پانچ ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس منصوبے میں ایسے کیمرے لگائےکی تیاری کی گئی ہے جو گاڑیوں کی نمبر پلیٹ تک پڑھ سکیں۔ لیکن ابھی تک تو ایسا نہی ہوا ہے۔
کچے کے ڈاکوؤں سے نمٹنے کے لیے 796۔2ارب روپے فوجی نوعیت کے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ پولیس میں اسپیشل پولیس کو تیار کرنے کے لیے 84 کروڑ 66 لاکھ ا ہزار روپے رکھے گئے۔ 86 کروڑ 86 لاکھ 84 ہزار کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے لیے الگ مختص کیے گئے۔ سندھ رینجرز کے لیے 2023 میں حکومت سندھ نے ایک ارب 38کروڑ روپے کے فنڈ واپس کیے 2015 میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بتا چکے ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ رینجرزپر سالانہ نو ارب روپے خرچ کرتی ہے اور پھر حکومت 2 ارب 44کروڑ روپے خرچ کرتی ہے ۔اور ایک ارب 69 کروڑ روپے کا انٹرنل سیکیورٹی الاؤنس بھی اس کے علاوہ ہے۔ جب سے رینجر سندھ میں تعینات ہوئےہیں۔ اس وقت سے ان پر اربوں کھربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ سندھ میں ایک لاکھ 22 ہزار پولیس اہلکار 10 ہزار رینجرز امن و امان کے قیام کے لیے تعینات ہیں۔ گویا سندھ کے ہر 28 افراد پر ایک اہلکار تعینات ہے۔ اس حوالے سے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے صدر آصف علی ذرداری کو محکمہ داخلہ سندھ نے 2024 کی ابتدائی رپورٹ دی ہے کہ اسٹریٹ کرائم میں جنوری سے مئی تک 49 افراد قتل ہوئے ہیں جبکہ اصل تعداد 55 سے بھی زیادہ ہے اور 114 کو گرفتار کیا ہے۔ لیکن شہر اب بھی محفوظ نہیں ہے ۔ان اہلکاروں کو اورافسروں کوکون یاد دلائے کہ حضور اس شہر میں امن و امان قائم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ یہ ادارے پکارتے رہیں گے کہ ارے کسی مرد کو بلاؤ کسی مرد کو بلاؤ اور کوئی شوخ کنیزان کویاد دلائے گی کہ حضورآپ بھی تو ہیں اور ان میں سے کوئی یہ کہہ دے کہ خوب یاد دلایا۔
Load/Hide Comments