ایران میں سابق صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت کے بعد صدارتی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔ شیڈول کے مطابق28جون کو ایران میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ویسے تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایران میں ایک کنٹرولڈ جمہوریت ہے اسے مکمل جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے وہاں کے انتخابات بھی کنٹرولڈ ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست ایران کی جمہوریت کو بہت آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں وہاں انتخابات کا تسلسل ہے۔ اور یہ جمہوریت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ اسی تسلسل کی وجہ سے دوست ایران کی جمہوریت کو پاکستان کی جمہوریت سے بہتر قرار دیتے ہیں۔
ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات کے لیے صرف چھ امیدواران کو انتخابات لڑنے کی اجازت ملی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے نامور امیدواران نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کروائے تھے۔ لیکن ایران کی سپریم کونسل کی طرف سے ان میں سے صرف چھ امیدواران کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی ہے۔ایران میں ایک 80رکنی سپریم کونسل موجود ہے۔ جو یہ طے کرتی ہے کہ کون انتخابات لڑ سکتا ہے اور کس کو انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو سب سے زیادہ طاقت حاصل ہے۔ وہ اس سپریم کونسل سے بھی اوپر ہیں۔ اس لیے جب کوئی ایرانی سیاستدان ان کی منظوری کے بغیر انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکتا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی انتخاب ان کے حامیوں کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ کوئی انقلاب مخالف اور اصلاحات پسند رہنما انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکتا۔ صرف انقلاب ایران کے مکمل حامیوں کو ہی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے۔
آپ دیکھیں ایران کے سابق صدر احمدی نژاد سے ان کی سپریم کونسل اور سپریم لیڈر ناراض ہیں۔ اسی لیے جو شخص دو دفعہ ایران کا صدر رہ چکا ہے اسے بھی انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ اس دفعہ بھی احمدی نژاد کے کاغذات مسترد کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں بھی انھیں اسی طرح نا اہل کر دیا گیا۔ ایرانی انتخابات میں نا اہلیت کے لیے کسی عدالتی فیصلے یا کسی مقدمے کی سزا ضروری نہیں۔ ایرانی سپریم کونسل اور ایرانی سپریم لیڈر کے پاس لامحدود اختیارات ہیں کہ وہ جب چاہیں جس کو چاہیں اہل کر دیں جس کو چاہیں نا اہل کر دیں۔ اس دفعہ بھی یہی مخصوص اور لا محدود اختیارات کا استعمال کیا گیا ہے۔
چار خواتین سیاسی رہنماں نے بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کروائے تھے۔ لیکن انھیں بھی نا اہل کر دیا گیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا اس سے پہلے بھی کئی خواتین نے ایران کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن ہر دفعہ خواتین کو نا اہل کر دیا جاتا ہے۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد آج تک ایک بھی خاتون کو ایران کا صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایران میں گزشتہ سال خواتین کے حقوق اور ان کے لباس کو لے کر بہت سے احتجاج سامنے آئے ہیں۔ ان احتجاج سے ریاست نے سختی سے نبٹا ہے۔
ایران کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خواتین امیدوار کاغذات جمع کراتی ہیں شاید کاغذات جمع کرانے پر پابندی نہیں ہے لیکن کسی خاتون کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی ممکن ہے ایرانی آئین میں کوئی مماثلت ہو ایرانی صدارتی الیکشن کے لیے خواتین امیدواروں کے کاغذات قانون یا آئینی شق کے تحت مسترد کیے جاتے ہیں۔ اس پر یقینا بات ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے دوست ایسے ایشو پر بات کرنے کے بجائے بس ایران کی جمہوریت کو جمہوریت ماننے کی ضد کرتے ہیں۔
جدید جمہوری نظام میں کسی ریاست کے ہر شہری کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے اس کے نظریات خواہ کیسے بھی ہوں۔ جب ہر شہری اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ ہی نہیں ڈال سکتا تو اس کو جمہوریت کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ووٹرز پابند ہیں کہ انھوں نے ایران کی سپریم کونسل کے منظور شدہ امیدواران میں ہی سے کسی ایک کو ووٹ ڈالنا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ ایران کی کنٹرولڈ جمہوریت میں کسی لبرل کے اوپر آنے کا کوئی چانس ہی نہیں ہے۔ ایک ہی سوچ فکر اور نظریہ کے لوگ آپس میں انتخابات لڑتے ہیں۔ ان کی ایرانی انقلاب اور ایرانی سپریم کونسل اور سپریم لیڈر کے ساتھ وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہے۔ یہی ان کے امیدوار ہونے کی پہلی شرط ہے۔ اور یہی امیدوار ہونے کی بنیاد ہے۔
ایرانی پارلیمان کے سابق اسپیکر علی لاری جانی اور پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر بھی صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایران میں آپ اپنے کاغذ مسترد کیے جانے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کر سکتے۔ کوئی عدالت اس پر کوئی بھی اپیل سننے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی۔وہاں سپریم کورٹ ان معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں رکھتی ۔
بہر حال ان سب کے ساتھ ایران میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ جو بھی امیدوار ہونگے ان میں کسی ایک کو ووٹ ڈال سکیں گے۔ ایران میں ووٹنگ کا نظام بہت شفاف ہے۔ شاید اس سب کے بعد کوئی آر ٹی ایس بٹھانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ کوئی الیکشن دھاندلی کی ضرورت نہیں رہتی۔ کوئی فارم 45اور فارم 47کا چکر ہی نہیں رہتا۔ سب کچھ بہترین کنٹرول میں ہے۔ کسی امیدوار پر کوئی کیس بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جب کوئی آپ کی مرضی کے بغیر انتخاب ہی نہیں لڑ سکتا تو خطرہ کس بات کا۔ بہترین جمہوریت کی عمدہ مثال ہے، ایران۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس