سو دنوں کی کہانی : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


ابھی زیادہ دیر نہیں گزری جب وزیروں مشیروں کے علاوہ لباس پر بڑے بڑے عہدوں کے تمغے سجائے لوگ مثبت رپورٹنگ کے مشورے دے کر چھ مہینوں میں کایا پلٹ جانے کی خوشخبری سناتے تھے ۔ملک کا برا حال ہو گیا مگر اُن کی معشوقانہ روایت نہ بدلی ۔کہنے کا مطلب یہ کہ سو دنوں کی کہانی کا ٹریلر ہر حکومت کسی نہ کسی حوالے سے ضرور جاری کرتی رہی ہے ۔مستقبل کے سہانے سپنوں، وعدوں اور اُمیدوں کے دلفریب اور سحرانگیز منظروں سے بھرپور ٹریلر کم کم ہی حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔76 سال سے آس کی ڈوری میں خواب پرونے کا سلسلہ جاری ہے ، خواہشات کا وِرد کرتے اجتماعی احساس کی انگلیاں گھس گئیں مُرادیں بَر نہ آئیں ۔مُرادیں بھی وہ جنہیں محلوں ، جہازوں اور خزانوں سے کوئی سروکار نہیں ۔صرف عزت سے جینے یعنی زندگی کے لوازمات کی طلب تک محدود ہیں، اپنی چھت، تعلیم، صحت،سواری کی سہولت، بنیادی ضروریات کا بوجھ سہارنے والی مزدوری اور انسانی قدروں کا حامل ماحول۔ کبھی خواب دکھانے والے مُکر جاتے ہیں تو کبھی جبر کی فضا ریشمی ڈوری کے ٹکڑے کرکے دروازے پر زنجیر باندھ جاتی ہے ۔ہر آنے والا بڑے بڑے دعوے کرتا اور سہانے خواب دکھاتا رہا ہے لیکن تعبیر کا کوئی نقشہ اُس کی جیب میں نہیں ہوتا اس لئے بہت جلدی رقص کرتی سرشار فضاؤں کو مایوسی کی لہر جکڑنے لگتی ہے اور نااُمیدی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ مریم نواز کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے ۔اس لئے ہم نے اُن سے جو اُمیدیں وابستہ کی ہیں اُن کے بَر آنے کا دل کو یقین سا ہے ۔ ایک تو یہ کہ عورت ہونے کے ناطے وہ ماں کی نظر سے معاملات کو سلجھاتی اور مہربان فیصلے کرتی نظر آر ہی ہیں، دوسرا اُنھوں نے صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس اور جامع منصوبوں کا باقاعدہ آغاز کرکے اپنی انفرادیت پر مہر ثبت کی ہے ۔بہت متحرک وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری نے سینئر کالم نگاروں کو سو دنوں کی کہانی سناتے ہوئے تیس کے قریب منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی ، وزارتِ اطلاعات کے شائع کردہ ،خدمت کے سو دن، پمفلٹ میں ان کی تصویری جھلکیاں بھی موجود ہیں ۔ تاہم مختلف محکموں اور انٹرنیٹ سے ان کی تصدیق سے حیرت ہوئی کہ سو دنوں میں تیس منصوبوں کا مطلب ہر تین دن بعد ایک بڑا پروجیکٹ لانچ کیا گیا، ان سو دنوں میں ہفتہ اتوار کی چھٹی والے دنوں میں بھی کام کو ترجیح دی گئی۔اگرچہ شروعات اچھی ہیں مگر پنجاب نے بہت سخت دن دیکھے ہیں۔پنجاب سرسبز کھیتوں کی سرزمین ہے ، سبزے کے رکھوالے کسان کی حالت سدھارنے کی ضرورت ہے ، وقتی ریلیف کی بجائے مستقل بنیادوں پرکم رقبے والے کسانوں کو سہولیات کی فراہمی ضروری، ایسا نہ ہو وہ مایوس ہو کر کوئی اور روزگار اپنا لے اور مزید رقبہ بنجر ہونے لگے ۔جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کی پیداوار بڑھانے اوربنجر پڑے رقبے پر فصلوں اور درختوں کی کاشت سے موسمیاتی تبدیلی کی تلخی بھی کم کی جاسکتی ہے ۔آج پنجاب کا ڈھائی کروڑ بچہ اسکول سے باہر ہے اس لئے تعلیم کے ایسے نظام کو پہلی ترجیح پر رکھنا ضروری ہے جہاں غریب کا بچہ بھی مستفید ہو سکے اور یہ صرف حکومتی سرپرستی میں ہی ممکن ہے ۔وزیر اعلیٰ صاحبہ! پنجاب نے آپ پر اعتماد کیا ہے اسلئے دیگر صوبوں میں پنجابیوں پر ہونے والے مظالم کو رکوانے کے لئے آپ کو کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ لاہور اور دیگر بڑے شہر وں میں جہاں کثرت سے غیر مقامی آباد اور کاروبار پر قابض ہیں آپسی لڑائیوں کے خطرات بڑھنے کا خدشہ ہے ، پنجاب کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز پر، میرٹ پر آنے والے مقامی طالبعلموں کاپہلا حق ہے ، وفاقی حکومت دوسرے صوبوں کو پابند کرے کہ وہ وہاں یونیورسٹیوں کی تعداد اور حالت بہتر کریں ، پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کی بے جا حمایت کو ہمیشہ منفی رنگ میں دیکھا گیا اور بدلے میں پنجاب کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے عجیب الزامات لگائے گئے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ملے حقوق کے تحت ہر صوبہ خود کمائے اور خوشحال ہو ، آپ پنجاب کو آئیڈیل بنا کر پیروی کے لئے مثال قائم کریں ۔کم پڑھے لوگوں کو مختلف ہنر سکھا کر اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک اور بیرون ملک میں عزت کی روٹی کماسکیں ، ہمارے ہاں ایک کمانے اور وسیع کنبہ کھانے کی روایت ہے، گھریلو خواتین کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت کہ کس طرح انھیں قومی دھارے میں لا کر ان کے گھر اور صوبے کی معیشت بہتر کی جاسکتی ہے، آج کل پوری دنیا ایک کنبہ بن چکی ، ہمارے کڑھائی والے ملبوسات ہر جگہ پسند کئے جاتے ہیں ،اسے تنظیموں کی بجائے سرکاری سرپرستی میں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ایک اور قابل توجہ معاملہ ٹرانسپورٹ کا ہے ،ایک شہر سے دوسرے شہر جانا آسان مگر شہر کے اندر سفر کرنا محال ہو چکا، لاہور جیسے بڑے شہر میں ہر روٹ پر پبلک ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے ، ہم مختلف ملکوں کی طرح شہر میں بسوں میں سفر کرسکیں، اس سے ٹریفک میں بھی کمی آئے گی اور ماحول پر بھی اچھااثر پڑے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ