سرینگر(صباح نیوز)مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے وو ٹ کی طاقت سے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو مسترد کردیا،مبصرین کے مطابق الیکشن میں 35 سالہ انتخابی بائیکاٹ کے بعد ریکارڈ ووٹر ٹرن آوٹ کشمیریوں کا مودی حکومت کے خلاف غصے کا اظہار تھا،برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پارلیمانی الیکشن کے دوران اس کے زیر انتظام کشمیر میں نتائج سے زیادہ ووٹر ٹرن آوٹ پر بحث ہو رہی ہے۔ایک طرف اسے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کی توثیق کہا گیا تو دوسری جانب اسے کشمیریوں کی طرف سے برسوں سے دبے غصے کا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔مودی کی جماعت بی جے پی والے اتحاد (این ڈی اے) کی جیت کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے ایک استقبالیہ سے خطاب کے دوران کہا کہ جموں کشمیر میں تاریخی ووٹنگ شرح نے ان طاقتوں کو آئینہ دِکھا دیا جو انڈیا کو دنیا بھر میں بدنام کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی رہنماوں نے کشمیر میں الیکشن بائیکاٹ کی روایت کے خاتمے پر کہا کہ مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق فیصلوں کی توثیق ہوئی۔واضح رہے جموں، کشمیر اور لداخ میں ان انتخابات میں ووٹنگ کی کل شرح 60 فیصد کے قریب رہی۔حکومت ہند کے پریس انفارمیشن بیورو کے مطابق کشمیر کی سرینگر، اننت ناگ اور بارہمولہ نشستوں پر کل ملا کر 58.46 فیصد ووٹنگ ہوئی جو نہ صرف 2019 میں ان ہی سیٹوں پر ہوئی 19 فیصد ووٹنگ سے تین گنا زیادہ ہے بلکہ گذشتہ 35 سال میں ہوئے سبھی انتخابات میں ہوئی ووٹنگ شرح میں سب سے زیادہ ہے۔یاد رہے کہ جموں، کشمیر اور لداخ میں انڈین پارلیمنٹ کے لیے چھ سیٹیں ہیں لیکن 2019 میں لداخ کو الگ کر کے جموں کشمیر کو مرکز کے زیرانتظام خطہ قرار دیا گیا تو جموں کشمیر کی پانچ سیٹیں رہ گئیں (دو جموں اور تین کشمیر میں)۔ان انتخابات میں جموں کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی کو فتح ہوئی جبکہ لداخ کی سیٹ وہ ہار گئی۔ کشمیر میں بی جے پی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا بلکہ چند برس قبل وجود میں آئی اپنی پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کی حمایت کی۔
لداخ کی سیٹ پر بی جے پی کی ہار کے علاوہ کشمیر میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار بھی لاکھوں ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔لداخ کی واحد سیٹ جیتنے والے آزاد امیدوار حاجی حنیف جان نے بی جے پی کے مدمقابل ژیرنگ نمگیال کو 27 ہزار سے زائد فرق کے ووٹوں سے شکست دے دی۔ان کی جیت کے بعد ان کے قریبی ساتھی سجاد کرگلی نے کہا کہ لداخ میں بودھ اور مسلم آبادی نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کر کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو مسترد کیا۔ لوگوں نے آرٹیکل 370 کے خاتمے، جموں کشمیر سے لداخ کو الگ کرنے اور دونوں کو فقط مرکز کے زیرانتظام خطے بنانے کے فیصلے کو مسترد کیا۔کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمرعبداللہ بارہمولہ سیٹ پر خود تو الیکشن ہار گئے لیکن ان کی پارٹی کے دو امیدوار سرینگر اور اننت ناگ کی بھاری مارجن سے جیت گئے۔انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کہی باتوں کو نتائج کے بعد دوہراتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے یہ ووٹ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر سے متعلق بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف دیا۔لوگ ناراض تھے تو وہ ووٹ دینے باہر کیوں نکلے؟اس سوال پر کشمیری حلقوں میں کئی ہفتوں سے بحث جاری ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گذشتہ پانچ برس کے دوران یہاں کی مقامی سیاسی جماعتوں کو سائیڈ لائن کرنے کی جو کوششیں کیں، یہ اسی کا جواب تھا۔اس بارے میں عمرعبد اللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے کارکنوں میں اتفاق نظر آتا ہے۔دونوں جماعتوں کے بعض رہنماوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو لگا کہ دھونس، دباو اور خوف کی حکمرانی سے وہ مقامی سیاست کو کنارے کر کے یہاں بیوروکریسی کا راج قائم کر کے دنیا کو نقلی امن دکھائیں گے۔ لیکن ووٹنگ نے ثابت کر دیا کہ لوگ ملک کے انتظامی عمل میں اپنا آئینی اور قانونی کردار چاہتے ہیں۔لیکن الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو مین سٹریم کہلانے والے سیاسی گروپوں کے ان دلائل پر سوالات اٹھے۔محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تین میں سے کوئی بھی سیٹ نہیں جیت پائی جبکہ نیشنل کانفرنس صرف سرینگر اور اننت ناگ کی سیٹ جیت سکی۔۔