شمار…..تحریر محمد اظہر حفیظ


زیادہ تر انسان صرف اپنے دکھ شمار کرتے ہیں اور اسی کو روتے رہتے ہیں۔ ہر کسی کو سناتے ہیں میرے ساتھ یہ ظلم ہوا یہ زیادتی ہوئی پر کبھی اپنے سکھ شمار نہیں کرتے۔
نوشی گیلانی صاحبہ کہتی ہیں
“محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا”
بھٹو فیملی میں بھٹو صاحب وزیراعظم ہوئے پھر بے نظیر بھٹو صاحبہ دو دفعہ وزیراعظم ہوئیں زرداری صاحب دو دفعہ صدر منتخب ہوئے ۔ پر انکو یہ سکھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے کہ بھٹو صاحب اور بی بی صاحبہ شہید ہوئیں ۔ اسی کا پرچار کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب اور انکی فیملی کئی دفعہ وزیراعظم اور وزیراعلی بنی پر انکو صرف ہٹایا جانا یاد ہے، عمران خان صاحب چار سال وزیراعظم رہے کسی کو یاد نہیں پر وہ قید میں ایک سال سے ہیں سب کو یاد ہے۔ اگر ہم شکر بجا لائیں کہ رب نے جو ہم پر کرم کئے اس کا شکر ہے۔
پر سیاست ایک بے رحم روزگار ہے جس میں شکر کے ووٹ نہیں ملتے بلکہ ہمدردی کے ووٹ ملتے ہیں ۔ اس لیے یہ سارے کے سارے آپ کو اپنے دکھ سناتے ہیں جو زندگی کے مزے ہیں وہ نہیں بتاتے ورنہ ووٹ بینک میں فرق پڑ جاتا ہے۔
اپنی ساری زندگی میں جتنے مظلوم میں نے سیاستدان دیکھے ہیں شاید ہی کوئی اور نسل یا قوم دیکھی ہو۔ گھروں پر جنریٹر، سولر ، بجلی لگی ہوئی ہے ہر وقت مختلف ذرائع سے بجلی حاصل کرتے ہیں شاید انکو لوڈ شیڈنگ کا پتہ ہی نہیں۔ گندم کسان کی نہیں بک رہی اگر کسی سیاستدان کی گندم ابھی تک پڑی ہے تو ضرور بتائے گا ۔ یہ سب وہ پاگل ہیں جو پاگل پن میں بھی لوگوں کی چیزیں اٹھا کر اپنے ہی گھر پھینکتے ہیں۔ ائرکنڈیشن گھر گاڑی دفتر سے نکل کر یہ غریب کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کمال کرتے ہیں۔ انکو کیا پتہ کہ مسائل کیا ہوتے ہیں۔ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں۔ جس کے بجلی ، گیس، پانی کے بل میری جان نہیں چھوڑتے۔ جن کے سینکڑوں کنالوں میں گھر ہیں وہ کیسے یہ سب اخراجات برداشت کرتے ہیں ان کے کیا وسائل ہیں۔ کبھی شمار تو کیے جانے چاہیں ۔
جب بات شکر شمار کرنے کی آئے تو بے شمار ہیں۔
صحت کو شمار کیجئ, ذائقے کو شمار کیجئے، سانس لینے کو شمار کیجئے، دیکھنے کو شمار کیجئے، سونگھنے کو شمار کیجئے، چلنے کو شمار کیجئے، بیٹھنے کو شمار کیجئے، سونے کو شمار کیجئے ، جاگنے کو شمار کیجئے، موسموں کو شمار کیجئے، رحمتوں کو شمار کیجئے، سجدوں کو شمار کیجئے، پھولوں کو شمار کیجئے، پھلوں کو شمار کیجئے، کھانے کو شمار کیجئے، پینے کو شمار کیجئے، رزق کو شمار کیجئے، کرم و فضل کو شمار کیجئے، سکون کو شمار کیجئے، اولاد کو شمار کیجئے ، بہن بھائی شمار کیجئے، دوست احباب شمار کیجئے، لکھتے لکھتے میرے ہاتھ تھک جائیں گے پر یہ شمار مکمل نہیں ہوسکتا۔
میری زندگی میں شاید ہی چند دکھ ہوں اور بے شمار سکھ ہیں پر مجھ جیسے بدقسمت کو شاید دکھ ہی شمار کرنے آتے ہوتے پھر میرے رب نے مجھ پر کرم کیا اور مجھے دکھ بھلا دئیے اور مجھے سکھ شمار کرنے سکھا دئیے ۔
میں ہر وقت شکر کے آنسو روتا ہوں یا باری تعالیٰ تیرا شکر ہے کہ تو نے بے شمار سکھ دئیے۔ اور مجھے ان کو شمار کرنا سکھایا۔
مجھے ہر لمحے وہ نئے سکھ دیتا ہے اور میں اس کے مزے لیتا ہوں ہوں کیونکہ سکھ کو شمار کرنا بھی ایک کرم و فضل ہے جو سب پر نہیں ہوتا ۔
کبھی اپنے لیے وقت نکالیں اور شمار کریں سکھ کو جو رب نے آپ کو عطا کئے ہیں دکھ آپ شمار کرنا بھول جائیں گے۔ انشاء اللہ