اِس بار جون کا مہینہ غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ایک طرف سیاسی اور آئینی معاملات کچھ اِس طرح تصفیے کے لیے سپریم کورٹ تک پہنچ گئے ہیں کہ عدلیہ اور مینجمنٹ کے درمیان اختیارات کی فیصلہ کن جنگ چھڑ گئی ہے اور دُوسری طرف بھارت میں سات مرحلوں کے اندر اِنتخابات ہوئے ہیں جن میں نریندر مودی کے خواب چکناچُور ہو گئے ہیں اور ظلم و تعصب کی دیوار ٹوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ انتخابات کے نتائج بھارت کی سیاست کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں اور پاکستان کے خارجی اور دِفاعی معاملات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ مَیں اِس امر پر یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی اور ہمارے سیاست دان اور قومی اور طاقت ور اِدارے ماضی کے تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہوش کے ناخن لیں گے، مکالمے کی تہذیب کو فروغ دیں گے اور میانہ روی اور بالغ نظری کی حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔ آئین میں ہر اہم ادارے کے اختیارات اور فرائض صراحت سے بیان ہوئے ہیں، اِس لیے اُن پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ وقت وطنِ عزیز کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی دلدل سے نکالنے اور اِسے عالمی برادری تک قابلِ قدر مقام دلانےکا ہے۔ یہ عظیم کام زبردست ڈسپلن اور کفایت شعاری کا اُصول اپنانے کا تقاضا کرتا ہے۔
بھارت کے انتخابات میں جو ایک تغیر دیکھنے میں آیا ہے، وہ کئی اعتبار سے حوصلہ افزا ہے۔ 1946ء میں جب ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے وضع کیے جا رہے تھے، تو اُن میں اِس حقیقت کا عکس موجود تھا کہ اگرچہ ایک ریاست کے اندر ہندوؤں اور مسلمانوں کا اکٹھا رہنا محال ہو گیا ہے، مگر ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ اَپنے اپنے علاقوں میں امن کے ساتھ رہیں گے اور باہمی معاہدوں کے ذریعے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ قائدِاعظم نے اِسی ہمہ گیر جذبے کے تحت دستورساز اسمبلی میں گیارہ اَگست کی تقریر میں پوری دنیا کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں اقلیتیں پوری طرح آزاد اور برابر کی شہری ہوں گی۔ ہندوستان میں بھی اِس نقطۂ نظر کے حامی خاصی بڑی تعداد میں تھے اور اِسی لیے بھارت کا آئین سیکولر اصولوں پر مدون کیا گیا اور پہلی کابینہ میں مسلم رہنما بھی وزیر لیے گئے۔ تمام تر تعصبات اور قتل و غارت کے باوجود کانگریس نے رواداری کی روایت کسی حد تک قائم رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی وجود میں آئی جب وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور اَپنے سیاسی مخالفین جیلوں میں بند کر دیے۔ اُن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ اُنہوں نے مشترکہ جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ واجپائی وزیرِاعظم نواز شریف کی دعوت پر پاکستان آئے اور اُنہوں نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے اِس عظیم حقیقت کا برملا اعتراف کیا کہ پاکستان اپنی طاقت سے قائم دائم ہے اور ہم اِس کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے مفاہمت کا عرصہ بہت مختصر ثابت ہوا اَور پاکستان اور بھارت کارگل قضیے میں اُلجھ گئے اور تلخیوں کا ایک نیا باب کھل گیا جس میں ہندوؤں کی انتہاپسند تنظیمیں زور پکڑتی گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب نریندر مودی نے گجرات میں اقتدار حاصل کر لیا اور مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ کانگریس اُن دنوں داخلی انتشار کا شکار تھی، اِس لیے انتہاپسندی کے آگے کوئی بند نہ باندھ سکی۔ نریندر مودی نے مسلمانوں سے نفرت کو اَپنی سیاسی زندگی کا محور بنا لیا۔ بی جے پی مسلم دشمنی میں اِس حد تک آگے چلی گئی کہ اُس نے 1992ء میں ایودھیا کے مقام پر بابری مسجد شہید کر ڈالی اور اُس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ اِس دہشت گردی کی بنیاد پر نریندر مودی بھارت میں ایک دہائی تک سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اُنہوں نے مختلف جماعتوں کے ساتھ ایک رسمی اتحاد قائم کیا اور 543 کے ایوان میں 2019ء کے انتخابات میں بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کر لیں اور 2024ء کے انتخابات میں مودی کا نعرہ تھا ’’اِس بار 400 سے پار‘‘۔ یعنی وہ لوک سبھا میں 400 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کے بعد بھارت کے سیکولر آئین کو تبدیل کر کے اُسے مہابھارت کا آئین بنانا چاہتےتھے۔ یہ بہت ہی خطرناک منصوبہ تھا۔ اِس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ثقافتی، سماجی اور سیاسی طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا دینا تھا۔ کانگریس نے منڈلاتے ہوئے خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور بھارتی آئین کے تحفظ کی تحریک منظم انداز میں چلائی۔ کانگریس کے لیڈر رَاہول گاندھی نے اِس موقع پر زبردست کردار اَدا کیا۔ اُنہوں نے بڑی سادگی سے پیدل ہزاروں میل کا سفر طے کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ نریندرمودی کی فسطائیت سے نجات دلانے کیلئے میدانِ عمل میں نکل آئیں۔
نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کو نشانے پر رکھا اور ایک امیدوار جس کی شکل ایک پاکستانی اداکار سے ملتی تھی، اُسے ہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر اِس بار اُس کی مسلم دشمن مہم بڑی حد تک ناکام رہی، چنانچہ ووٹروں نے اُس خاتون کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا جس نے علامتی طور پر مسجد پر تیراندازی کی تھی۔ یہ بھی کرشمہ ہوا کہ بی جے پی اُس حلقے میں بھی ہار گئی جہاں نریندر مودی نے رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ اُسے بھارت کے سب سے بڑے صوبے یوپی میں بھی شکست ہوئی اور بڑے بڑے صوبے اُس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ 400 نشستوں کے بجائے اُسے صرف 240 نشستیں ہی مل سکیں۔ ووٹروں نے اُسے سادہ اکثریت سے محروم کر دیا۔ اب اُس کا غرور ٹوٹ گیا ہے اور اُس کے جبر کا محل بری طرح لرزہ براندام ہے۔ مسلمانوں نے زیادہ تر کانگریس کو ووٹ دیے ہیں اور لوک سبھا میں وہ ایک طاقت ور پوزیشن میں آ گئی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ مسلمان بھارت کی سیاست میں پہلے سے زیادہ محفوظ ہو جائیں اور بی جے پی عوام کیلئے بہتر پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بھارت میں سیکولر طبقہ زیادہ مضبوط ہو گا جو شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا چاہتا ہے۔ اب دونوں ملکوں کی قیادت کا سخت امتحان ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ