کسبِ کمال کن : تحریر حفیظ اللہ نیازی


’’سب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘، کسی کسب میں ’’مقبولیت اور قبولیت‘‘ کا سفر، جان جوکھوں کا کام، تگ و دو اور مشکلوں سے عزیز جہاں ہوتا ہے۔ میری خوش نصیبی! جوانی ہی سے سیاست اور صحافت کی نامور شخصیات کو قریب سے دیکھا۔ قربت نصیب بنی تو ’’نابغہ روزگار‘‘ معنوی اعتبار سے عیاں ہوا۔ 55سالہ طویل سفر میں درجنوں سیاستدان اور صحافت کے مشاہیر کو دیکھنے، پرکھنے، کھنگالنے کا موقع ملا تو معدودے چند دل و دماغ، نظروں میں رچ بس گئے۔ عزیز جہاں کیلئے شرط بہت کڑی، ہر شعبہ میں غیر معمولی کمال درکار ہے۔

محترم سہیل وڑائچ کی کرشماتی شخصیت سے آغاز چاہتا ہوں۔ پچھلے دو ہفتوں میں 2بار ایسی تقریبات میں جانے اور اظہارِ خیال کرنے کا موقع ملا جہاں محترم سہیل وڑائچ جانِ تقریب تھے۔ UMT لاہور نے پروفیسر آف پریکٹس تعینات کر کے اپنے آپ کو نوازا کہ وڑائچ صاحب کا پروفیسر آف پریکٹس بننا UMT کیلئے اعزاز ہے۔ تقریب میں شریک نامور شخصیات کی کہکشاں نے محترم سہیل وڑائچ کے کمالات پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ اور قائداعظم یونیورسٹی کے اشتراک سے ’’سہیل وڑائچ کام اور سوچ‘‘دو دن پہلے اسلام آباد میں سیمینار نما ایک تقریب سجائی گئی۔ موقع کی مناسبت کے شایان شان جناب مجیب الرحمن شامی نے صدارت فرمائی۔ وڑائچ صاحب کے ’’کام اور سوچ‘‘ بلکہ پوری شخصیت کا حامد میر، سلیم صافی، کاشف عباسی اور درجن بھر دوستوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر احاطہ کیا۔ ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سلیم مظہر بنفس نفیس اپنی ذات میں بہت کچھ سمو چکے ہیں۔ ادارہ فروغ اردو کی عنان سنبھالنے سے پہلے اپنا مقام بنا چکے تھے۔ بحیثیت پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، قائم مقام وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی اپنا لوہا منوا کر ہی آج یہ مقام ملا ہے۔ اب ادارے کو چار چاند لگانے میں تن من دھن لگا رکھا ہے۔

افتتاحی خطاب بھی ڈاکٹر سلیم مظہر کا، کم وبیش سہیل وڑائچ کے اوپر ایک نصابی مقالہ تھا۔ ہر لفظ ہر فقرہ سہیل وڑائچ کی ذات پر منطبق۔ دانش، علم و فن، کام اور سوچ پر ایسا جامع اظہار یہ کہ آنیوالے سب مقررین نے اتفاق کیا کہ کسی کے پاس کہنے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ محترم مجیب الرحمن شامی نے صدارتی خطاب میں اسے حرفِ آخر بتلایا۔ تجویز پیش کی کہ ڈاکٹر سلیم مظہر کے مقالہ پر ہم سب دستخط کریں گے اور اسکو پمفلٹ کی صورت میں چھاپا جائیگا۔ بلاشبہ، سہیل وڑائچ صاحب کی ہمہ گیر شخصیت مع انکی ’’باکمال‘‘ پیشہ ورانہ زندگی ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ بحیثیت ادیب، کالم نویس، ایڈیٹر، TV اینکر ایک زمانہ معترف ہے۔ جس شعبہ زندگی میں قدم رنجہ فرمایا، چار چاند لگائے۔ انفرادیت، نئی جہت، لفظیات، خوبصورت استعارے، بے مثال فقرے، بہت کچھ ایجاد کر ڈالا، متعارف کرایا۔ آج جو مقام، عزت، مرتبہ پایا، ایسے گامزن کہ عزیزِ جہاں شوی ایک رہ گزر، آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔دانشمندی، تخلیق و تحقیق، عقلمندی، جنون، محنت، معاملہ فہمی، میانہ روی، عاجزی و انکساری یہ آٹھ عناصر ہوں تو بنتا ہے ’’سہیل وڑائچ‘‘، ہر مد ایک کتاب کا موضوع ہے۔ پیر محمد ضیاء الحق کی لکھی کتاب، ’’سہیل وڑائچ کی کہانی‘‘ اس لحاظ سے جامع کہ عزیمت ( STRUGGLE ) اور عزم کی بے مثال داستان لکھ ڈالی۔ بامِ عروج تک کا سفر، جامع دستاویز ہے۔ کتاب اس لحاظ سے تشنہ طلب کہ علمی، پیشہ ورانہ اوصاف اور کمالات پر سیر حاصل گفتگو موجود نہیں۔ سب سے پہلے لفظیات کا ذکر اسلئے ضروری کہ بڑے بڑے سیاسی لکھاری، کالم نویس، TV اینکر سہیل صاحب کا سہارا لئے بغیرسخت گیر سیاسی ماحول میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ لفظیات، استعارے درجنوں سکہ رائج الوقت ہیں۔ ایک آدھ کا ذکر ضروری، ’’مقبولیت اور قبولیت‘‘، دو الفاظ کا جوڑ، 70 سالہ وطنی سیاسی نظام کی من وعن عکاسی ہے۔

عالم بالا سے خطوط، منفرد اسلوب، اچھوتا اور انوکھا انداز بیان ہے۔ برسبیل تذکرہ ایک خط ’’شوکت خانم بنام عمران‘‘، معلوم ہوتا ہے کہ محترم سہیل وڑائچ کی جم پل عمران خان کے گھر ہوئی ہے۔ خط میں، شوکت خانم اور اکرام اللہ نیازی کا انداز تکلم اور منسوب فقرے درج،100 فیصد فٹ بیٹھتے ہیں۔ جیو TV پر ’’ایک دن جیو کیساتھ‘‘ پروگرام میں فقرہ، ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں‘‘ آج زبان زدعام و خاص۔ جب بھی بولا جاتا ہے، سہیل وڑائچ کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔ سخت ترین کڑے سیاسی ماحول میں اپنی بات آگے بڑھانا، ملفوف انداز میں بیان کرنا، ذخیرہ ایجاد کر چکے ہیں۔ مجال ہے کہ تنقید کریں اور کسی کی دل آزاری ہو، ناممکن۔ اپنی قسمت پر نازاں کہ محترم سہیل وڑائچ کی بھرپور قربت آج میرا قیمتی سرمایہ ہے۔

اسلام آباد کی تقریب کا ذکر اور ڈاکٹر نیاز احمد اختر سے صَرف ِنظر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر نیاز سے کئی جہتوں کی نیاز مندی ہے۔ میرے 2مادرِ علمی انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا اور قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ قائداعظم یونیورسٹی سے میری حسین یادیں وابستہ ہیں۔ 2سال کی مدت میں جنرل سیکرٹری اور صدر یونین رہا، اس موضوع پر پھر کبھی بات ہو گی۔ ڈاکٹر نیاز صاحب اب تک 4یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہ چکے، انمٹ نقوش اور غیر معمولی کارکردگی کی داستان چھوڑ چکے ہیں۔ باوصف و باکمال، بطور وائس چانسلر ایسی دھاک بٹھائی کہ جیسے پیدا ہی اسی کام کیلئے کیا گیا ہو۔اگرچہ بہت بڑے وائس چانسلر ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے قائد اعظم یونیورسٹی سنٹر آف ایکسی لنس کی بنیاد رکھی۔ بدقسمتی، جب ڈاکٹر نیاز صاحب نے عنان سنبھالی تو یونیورسٹی بدترین حالت میں بند تھی۔ ہر لحاظ سے سنٹر آف ایکسی لنس کا باجہ بج چکا تھا۔ نہ صرف بند یونیورسٹی کو کھلوایا، سوا سال کے قلیل عرصہ میں تعلیمی معیار بہتر کیا، کئی نئے شعبے کھولے۔ آج یونیورسٹی کھوئے ہوئے مقام کی طرف دوبارہ تیزی سے گامزن ہے۔

بطور وائس چانسلر آغاز 2014نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا تو وہاں بھی یونیورسٹی بند ملی۔ تعلیمی ماحول کو بحال کیا اور یونیورسٹی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی بنی۔ UET ٹیکسلا (میری مادر علمی) کی ایڈمنسٹریشن سنبھالی تو اجاڑ یونیورسٹی کو باغ وبہار بنا ڈالا۔ کسمپرسی سے نکال کر اسکو باوقار ادارہ بنایا، زمانہ معترف۔ پنجاب یونیورسٹی آئے تو حکومت پنجاب رطب اللسان کہ یونیورسٹی پڑھنے پڑھانے کے شعبہ سے زیادہ دنگا فساد کا گڑھ بن چکی تھی، امن کا گہوارہ بنایا۔ ساڑھے چار سال میں ہر شعبہ کوغیر معمولی ترقی دی۔ چند ہفتے پہلے ڈاکٹر نیاز صاحب کی محنت رنگ لائی، ایشیا میں اس تیزی سے ترقی پانے والی نمبر 1یونیورسٹی قرار پائی۔ اسی دوران یونیورسٹی آف ساہیوال میں بھی فیکلٹی، طلبا اور اسٹاف تینوں شعبوں کی صلاحیت اور تعداد کئی گنا بڑھا ڈالی۔ میں جب ایسی شخصیات کو دیکھتا ہوں تو سب میں ایک ہی چیز مشترک، انکا کسب کمال، آج عزیز جہاں ہیں، پورا زمانہ فریفتہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ