یہ لڑائی روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اصل لڑائی چند افراد کی ہے لیکن افراد کی لڑائی اداروں کی لڑائی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ایک طرف ایگزیکٹو اور اس کے ماتحت کچھ ادارے ہیں جو کچھ ججوں سے ناراض ہیں اور ہر قیمت پر جج صاحبان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔دوسری طرف جج صاحبان آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایگزیکٹو اور عدلیہ کی لڑائی کو آزاد کشمیر تک پھیلا دیا گیا ہے تاکہ جج صاحبان کو بتایا جائے کہ آپ کا آئینی اختیار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں تو چل سکتا ہے لیکن آزاد کشمیر میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی مرضی چلے گی۔اداروں کی اس لڑائی نے یہ سوال بھی پیدا کر دیا ہے کہ کیا آزاد کشمیر ایک غیر ملکی علاقہ ہے؟ یہ سوال خود حکومت پاکستان نے پیدا کیا ہے۔ 31مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے یہ موقف اختیار کیا کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد فرہاد کو اس عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ آزاد کشمیر پولیس کو کئی مقدمات میں مطلوب ہے اور گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ پر ہے ۔پھر دوگل صاحب نے بڑے مودبانہ انداز میں عدالت کو کہا کہ مائی لارڈ!آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ ہے وہاں گرفتار ملزم کو اس عدالت میں پیش کرنا ممکن نہیں ۔آئینی حدود کے اس سوال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ احمد فرہاد 14مئی کو آزاد کشمیر سے نہیں بلکہ اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے تھے۔14مئی سے 29مئی کے دوران احمد فرہاد کی بازیابی کے مقدمے کی سماعتوں میں اسلام آباد پولیس نے یہاں تک کہا کہ جیو فینسنگ کے ذریعے احمد فرہاد کی خیبر پختونخوا میں موجودگی کا پتہ مل گیا ہے اور بہت جلد اسے عدالت میں پیش کر دیا جائے گا لیکن 29مئی کو بتایا گیا کہ اسے کوہالہ کے مقام پر باغ جاتے ہوئے گرفتار کیاگیا اور اسی دن درج ہونے والی ایف آئی آر میں اس کا جرم صرف پولیس کے ساتھ بدتمیزی بتایا گیا۔31مئی کو عدالت کو بتایا گیا کہ احمد فرہاد پر دہشت گردی کے مقدمات بھی ہیں اور آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ ہے۔عدالت کو یہ بھی کہا گیا کہ احمد فرہاد نے آزاد کشمیر میں وہی کچھ کیا ہے جو گزشتہ سال 9مئی کو پاکستان میں تحریک انصاف والوں نے کیا تھا۔ حکومت پاکستان کے اس موقف نے پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث شروع کر دی کہ کیا آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ ہے ؟
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھارتی قبضے میں موجود جموں وکشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں کہا جا سکتا اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہیں کہا جا سکتا۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لیکر گیا اور پھر بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے لیکن کشمیریوں کو بھارتی پاسپورٹ اور بھارتی شناختی کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے ۔آزاد کشمیر والوں کو بھی پاکستان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی نمائندگی موجود ہے لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ میں آزاد کشمیر کی نمائندگی نہیں ہے۔ 28اپریل 1949ء کے معاہدہ کراچی کے مطابق حکومت آزاد کشمیر نے اپنا دفاع اور خارجہ پالیسی حکومت پاکستان کے حوالے کی لیکن آزاد کشمیر کا انتظامی کنٹرول اپنے پاس رکھا تاہم گلگت اور لداخ کے تمام معاملات حکومت پاکستان کو دے دیئے۔ بعدازاں1973ء کے آئین میں دفعہ 257ء میں کہا گیا کہ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور ریاست کے تعلقات کا فیصلہ ریاستی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو گا۔1974ء میں آزاد کشمیر کی منتخب اسمبلی نے آزاد کشمیر کا آئین منظور کر لیا اور اس آئین کے تحت قائم ہونے والی آزاد کشمیر کی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے ایسے بہت سے فیصلے دیئے جن کے مطابق آزاد کشمیر کو پاکستان کی کالونی تو نہیں کہا جا سکتا اور صوبہ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن انتظامی طور پر یہ پاکستان کا حصہ ہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ آزاد کشمیر میں الحاق پاکستان ریاست کی سرکاری پالیسی ہے۔ الحاق پاکستان کے مخالفین یا خود مختار کشمیر کے حامیوں کو ریاستی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں لیکن حکومت پاکستان اسلام آباد ہائیکورٹ میں آزاد کشمیر کو غیر ملکی علاقہ قرار دیتی ہے ۔اگر یہ بیان احمد فرہاد دیتا کہ آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ ہے تو پاکستان کا دشمن قرار پاتا لیکن یہ بیان منور اقبال دوگل دے تو کوئی بات نہیں۔حکومت پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس بیان پر میں نے تنقید کی تو مجھے پاکستان کے ایک اہم آئینی عہدے پر فائز شخصیت نے فون کیا اور آزاد کشمیر کو غیر ملکی علاقہ قرار دینے کے بیان پر مجھ سے معافی مانگی۔میں نے پوچھا کہ آپ مجھ سے معافی کیوں مانگ رہے ہیں عدالت کو بتائیں کہ یہ بیان غلط ہے تو انہوں نے کہا وہ وزیراعظم سے بات کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کی نزاکت کا احساس رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا بیان نہ صرف سیاسی بلکہ قانونی لحاظ سے بھی غلط ہے ۔آزاد کشمیر ہائیکورٹ اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی نے ایسے متعدد فیصلے دیئے جن میں کہا گیا کہ آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ نہیں ۔امین سپننگ ملز میر پور بنام نیشنل بینک آف پاکستان کے نام سے ان کا ایک فیصلہ 1999ءمیں مشہور ہوا جب امین سپننگ ملز نے موقف اختیار کیا کہ وہ کراچی پورٹ پر ڈیوٹی ادا نہیں کریں گے کیونکہ یہ مال آزاد کشمیر امپورٹ کیا جا رہا ہے جو غیر ملکی علاقہ ہے۔جسٹس ریٹائرڈ سید منظور حسین گیلانی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آزاد کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے غیر ملکی علاقے کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ دو نظاموں کے تحت یہ ایک ہی ملک ہے ۔انہوں نے لکھا آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی صوبہ نہیں لیکن پاکستان کے اندر ایک صوبائی مقام رکھتا ہے ۔قوم پرست حلقوں نے اس فیصلے پر بہت تنقید کی لیکن جسٹس گیلانی نے 2006ء میں ایک اور فیصلہ لکھا اور قرار دیا کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے آئین کی دفعہ (1) کے تحت صوبہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اسی دفعہ کی شق 2کی ذیلی شق ڈی کے تحت یہ ایسے علاقے کی تعریف میں آتا ہے جو پاکستان میں شامل ہے ۔آزاد کشمیر میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے لیکر تمام اہم ریاستی اداروں کی شاخیں موجود ہیں تو پھر یہ غیر ملکی علاقہ کیسے ہے؟ اگر یہ غیر ملکی علاقہ ہے تو پھر یہاں پاکستان کی فوج کیا کر رہی ہے ؟کیا پاکستانی فوج نے آزاد کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے؟ اداروں کی لڑائی میں دشمنوں کے ہاتھ کون مضبوط کر رہا ہے ؟احمد فرہاد آج نہیں تو کل رہا ہو جائے گا لیکن منور اقبال دوگل کا بیان پاکستان کے مخالفین پاکستان کے خلاف ہمیشہ استعمال کرتے رہیں گے اس لئے حکومت پاکستان پہلی فرصت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو تحریری طور پر بتائے کہ 31مئی 2024ء کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے دیا گیا بیان غلط فہمی پر مبنی تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ