(گزشتہ سے پیوستہ)
11 اگست 1947کو قائداعظم محمد علی جناح کی دستور ساز اسمبلی میں تقریر انکے چالیس سالہ سیاسی موقف سے الگ نہیں تھی۔ ہیکٹر بولائتھو نے لکھا ہے کہ قائداعظم قیام انگلستان کے دوران تمام شہریوں کے لیے یکساں حقوق کی علمبردار لبرل پارٹی سے متاثر تھے۔ قائداعظم 1892کے برطانوی عام انتخابات میں لبرل پارٹی کے امیدوار دادا بھائی نورو جی کے سیکرٹری رہے۔ ہندوستانی سیاست میں اپنے ابتدائی دور میں وہ گوپال کرشن گوکھلے، سریندر ناتھ بینرجی اور مسز اینی بیسنٹ کے قریبی ساتھی تھے۔ قائداعظم تحریک خلافت سے الگ رہے۔ اکتوبر 1925 میں خلافت کمیٹی اماکن مقدسہ کے موضوع پر عزیز ابن سعود سے ناکام مذاکرات کر رہی تھی، ادھر قائداعظم نہرو رپورٹ کو رد کرتے ہوئے اپنے چودہ نکات مرتب کر رہے تھے۔ دستوری سیاست کے گرد گھومتے ان نکات میں مذہبی پیشوائیت کا کوئی پہلو نہیں۔ لاہور میں مسجد شہید گنج کے تنازع پر ظفر علی خان اور اختر علی خان کی شعلہ بیانی کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمانوں کی جان گئی۔ میر نور احمد مارشل لا سے مارشل لا تک میں بتاتے ہیں کہ فروری 1936 میں قائداعظم نے لاہور آکر یہ تنازع سیاسی طور پر حل کیا۔ 1940 کی قرارداد لاہور سمیت اگلے سات برس میں مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی کی تمام قراردادیں اور دستاویزات دیکھ کر نشان دہی کیجئے کہ قائداعظم یا مسلم لیگ نے کہاں مذہبی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا؟ 11 اگست 1947 کی تقریر کسی جلسہ گاہ میں تقریر نہیں تھی، بابائے قوم کا پالیسی بیان تھا۔ یہ بیان ان جاگیرداروں اور تعلقہ داروں کو پسند نہیں آسکتا تھا جو پاکستان کو جمہوریہ (Republic) بنانے سے بدکتے تھے چنانچہ اگست ہی میں قائداعظم کو امیر المومنین کے خطاب کی پیشکش سے دام بچھایا گیا۔ پھر نوائے وقت میں شیخ الاسلام کے تقرر کا اشقلہ چھوڑا گیا۔ جو قوم بیس برس پہلے امام الہند کا تصور مسترد کر چکی تھی وہ میر عثمان علی خان کے وظیفہ خوار اور نواب بہاولپور کے مشیر کو کیسے شیخ الاسلام تسلیم کرتی جہاں مجلس احرار نے حکومت الہیہ،عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تنظیم نے غلبہ اسلام اور جماعت اسلامی نے اسلامی نظام جیسے مبہم پرچم اٹھا رکھے تھے اور شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کی سربراہی کے علاوہ از خود یو پی اور حیدر آباد دکن کے مہاجرین کی نمائندگی کی خلعت بھی اوڑھ لی تھی۔ قائداعظم نے ریاست پاکستان کے جو سیاسی خدوخال بیان کیے تھے انہیں ایسی جھاڑ پھونک سے دھندلانا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ شبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947 کو ایک اخبار بیان جاری کیا جو نوائے وقت کے چیف رپورٹر زاہد چوہدری کے مطابق 3 ستمبر کی اشاعت میں شامل ہوا۔ قائداعظم کی رسمی احسان مندی کا اظہار کرنے کے بعد شبیر احمد عثمانی نے فرمایا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قائداعظم کی یہ فتح مبین مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہون احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائداعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علما ئے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے… یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کے ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی۔ دو قوموں کا نظریہ بے معنی نعرہ نہ تھا بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اسے کوئی بدل نہیں سکتا کیونکہ اس کی بنیاد قرآن مجید اور حدیث کے بنیادی اور ٹھوس اصولوں پر ہے جس میں ذرا بھی تبدیلی ناممکن ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمان ہمیشہ مسلمان ہی رہتا ہے۔ مسلمان گھر میں بھی مسلمان ہے، باہر بھی مسلمان ہے، جامع مسجد میں بھی، مصلی پر بھی، اسمبلی ہال میں بھی، گورنر کی کرسی پر بھی۔ اسلام کی یہی امتیازی شان ہے کہ مسلمان ہر شعبہ زندگی میں مسلمان ہی رہتا ہے۔ اس کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کے باوجود وہ غیر مسلموں کے ساتھ ایسا فراخ دلانہ سلوک کرتا ہے کہ دوسری قوم کی تاریخ میں ایسی مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اسلئے میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں مسلمان، مسلمان رہے اور ہندو ہندو۔ اسلامی ریاست انکے جان و مال اور عبادت خانوں کی حفاظت کرے گی بشرطیکہ وہ وفادار شہری ہوں۔ شبیر احمد عثمانی کا یہ بیان قائداعظم کی 11اگست کی تقریر سے کھلم کھلا اختلاف تھا۔ قائداعظم کی خدمات کے اعتراف میں بھی عثمانی صاحب نے علمائے دین کی قائدانہ بالادستی کا اظہار کیا۔ جس دو قومی نظریے کا علامہ ذکر کر رہے تھے وہ متحدہ ہندوستان میں آئینی بندوبست سے متعلق تھا۔ اگر دو مختلف قومی ریاستیں قائم ہونے کے باوجود مذہبی شناخت کی بنیاد پر قوم کی تعریف متعین ہونا تھی تو ان ساڑھے تین کروڑ مسلمانوں کے بارے میں عثمانی صاحب کی کیا رائے تھی جنہیں وہ ہندو اکثریت کے بھارت میں چھوڑ آئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں علامہ شبیر عثمانی بین الاقوامی قانون کے تحت وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کی 25 فیصد آبادی کو شہری مساوات سے محروم کرنا چاہتے تھے بلکہ خود مسلمان آبادی میں بھی ملاؤں کی حکومت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ دلچسپ بحث ہے کہ مذہبی طبقے میں فرقہ ورانہ اختلافات کو مولانا سرے سے نظرانداز کر رہے تھے۔ وہ پاکستان میں مسلمانوں کو حکمران اور غیر مسلم شہریوں کو محکوم تصور کرتے ہوئے واضح اعلان کر رہے تھے کہ مسلمان بحیثیت حکمران اسلامی ریاست میں ہندوئوں کی جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے بشرطیکہ وہ وفادار شہری ہوں۔ حضرت علامہ کے اس تصور وفاداری پر آئندہ نشست پہ بات کریں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ