کیوں سیاستدانوں کے نام پر اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، اپنے پیسوں سے اسکیمیں بنائیں اور اپنا نام لکھیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ  وزیروں کے لئے لینڈ کروزرخریدی جارہی ہیں ، چین میں وزیرسے لے کر صدر تک سائیکل پر دفترجاتے ہیں، ہم نے شروع بھی لینڈ کروزرسے کیااورختم بھی لینڈ کروزر پر کریں گے۔ کب پاکستان کودرست راستے پر چلائیں گے، ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں، کیاایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواعدالت سے بالاتر ہے، دستخط کرکے دے دیتا، ایڈووکیٹ جنرل کامقصد قانون بتانا ہے ، آپ کا کوئی مئوقف ہے کہ نہیں۔ آزادی کامطلب آزاد لوگ، ایک کی غلامی سے دوسرے کی غلامی نہیں پکڑنی،اپنی جیب سے پیسے دے کرنام رکھو، عوام کے پیسے لگاکراپنا نام کیسے رکھ رہے ہیں، اس پر اپوزیشن اورحکومت دونوں ایک ہی صفحہ پر ہیں، دونوں ایک دوسرے پر انگلی اٹھارہی ہیں ،

سب کواپنا حصہ چاہیے۔ کیوں سیاستدانوں کے نام پر اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، اپنے پیسوں سے اسکیمیں بنائیں اور اپنا نام لکھیں۔لینڈ کروزر خریدنے کے لئے پیسے ہیں ، مجھے سمجھ نہیں آرہی کیسے چیزیں مینج ہورہی ہیں، ہم تفصیلات منگوالیتے ہیں کہ کتنی لینڈ کروزرز ہیں، کس کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کریں۔ کیا آئین لوگوں کے پیسے پالیسی کے زریعہ خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے، پھر کیوں الیکشن لڑتے ہیں اگر پارلیمنٹ جانے سے ڈرتے ہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کررہے، ہم توہین عدالت کانوٹس دیتے ہیں، کس قانون کے خیبرپختونخواحکومت نے تحت پالیسی بنائی ہے۔خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کون ہیں، اِس عدالت کی کیا وہ عزت کرتے ہیں، کیا ان کا وجود ہے، ہم نے ان کومعاونت کانوٹس دیا تھا، ہم نے تحریری بیان مانگاتھا، کیا پالیسی آئین پاکستان سے بالاتر ہے،

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے جواب پر دستخط بھی نہیں کئے، اس کا دل کا مسئلہ ہے، یہ مسئلہ ہے، وہ مسئلہ ہے۔ جو کام پرویزالہیٰ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کررہے تھے وہی کام موجود پنجاب حکومت بھی کررہی ہے۔ سندھ کے 80میں سے 10لاء افسران دکھادیں جو قانون جانتے ہوں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی اپنے دستخط کے ساتھ دوہفتے میں جواب جمع کروائیں اوراگر کے پی حکومت اپنا الگ جواب جمع کروانا چاہے توچیف سیکرٹری کے زریعہ جمع کروائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب اوراعلیٰ اوردیگر کے توسط سے   ملک قاسم خان خٹک اوردیگر کے خلاف ارکان صوبائی اسمبلی کوترقیاتی فنڈز کی فراہم کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے معاونت کا نوٹس جاری کرنے کے باوجوداٹارنی جنرل منصورعثمان اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل پیش نہ ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کی جانب سے بینچ کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل 9مئی کے واقعات کے اثرات کے حوالہ سے حوالہ وزیر اعظم کی زیرصدارت ہونے والے اہم اجلاس میں شریک ہیں۔ جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ ایڈوکیٹ جنرل کے پی کو دل کی تکلیف ہوئی ہے اس لئے وہ پیش نہیں ہوسکے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ درخواست غیر مئوثر ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں۔ چیف جسٹس کاایڈیشل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انگریزی میں آرڈر لکھا تھا کیا ترجمہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے معاملہ پر معاونت کے لئے نوٹس جاری کیا تھا کوئی مئوقف ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر ملک جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو ڈیو شیئر دینے کی ہدایت کی ہے۔ملک جاوید اقبال وینس نے اٹارنی جنرل کاجواب پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس کاشاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون سی لائٹ ہے دکھادیں۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ خیبرپختونخواحکومت نے کے پی ڈویلپمنٹ پالیسی 2021میں بنائی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس آئین میں اختیار نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا کیس ہے یا یہ سالانہ بجٹ کا کیس ہے، آئین پڑھیں، آئین کی کیوں دھجیاں اڑارہے ہیں، آپ پڑھیں گے یا ہمیں صرف درس دیں گے، خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کون ہیں، اِس عدالت کی کیا وہ عزت کرتے ہیں، کیا ان کا وجود ہے، ہم نے ان کومعاونت کانوٹس دیا تھا، ہم نے تحریری بیان مانگاتھا، کیا پالیسی آئین پاکستان سے بالاتر ہے، ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے جواب پر دستخط بھی نہیں کئے، اس کا دل کا مسئلہ ہے، یہ مسئلہ ہے، وہ مسئلہ ہے، آپ کاغذ توداخل کرسکتے ہیں، آئینی شق کے مطابق بتادیں ہم صیح کام کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آئین لوگوں کے پیسے پالیسی کے زریعہ خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے، پھر کیوں الیکشن لڑتے ہیں اگر پارلیمنٹ جانے سے ڈرتے ہیں، الیکشن لڑنے کامقصد کیا ہے، اسمبلی سے اجازت لینا ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کررہے، ہم توہین عدالت کانوٹس دیتے ہیں، کس قانون کے تحت پالیسی بنائی ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ سکیم میں اربوں روپے رکھ کر تباہی شروع کرتے ہیں ، ایم پی از اورایم این ایز پیسے خرچ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل عدالت کی معاونت کرتے ہیں، آئین بتائیں ایسے توعدالت میں کیس پیش نہیں کرتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں اسمبلیوں سے ڈررہے ہیں، الیکشن لڑنے کا مقصد قبضہ کرنا نہیں، اپوزیشن مخالفت کرے گی، بتانا پڑے گااِدھر اسکول بن رہاہے،اُدھر سڑک بن رہی ہے اُدھر ہسپتال بن رہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کب پاکستان کودرست راستے پر چلائیں گے، ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں، کیاایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواعدالت سے بالاتر ہے، دستخط کرکے دے دیتا، ایڈووکیٹ جنرل کامقصد قانون بتانا ہے ، آپ کا کوئی مئوقف ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنا ہے، لینڈ کروزر خریدنے کے لئے پیسے ہیں ، مجھے سمجھ نہیں آرہی کیسے چیزیں مینج ہورہی ہیں، ہم تفصیلات منگوالیتے ہیں کہ کتنی لینڈ کروزرز ہیں، غریب آبادیوں میں پینے کے لئے صاف پانی نہیں ، چین میں چین میں لوگ سائیکل پر دفتر جاتے ہیں اور ہم لینڈ کروز رپر ہی رہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر کے گھر کی دیوار بنانے کے لئے پیسے ہیں، جیٹ لینا ہے وہ ٹھک خرید لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ التواء کی بھیک مانگ رہے ہیں،ہم اپنے زمانے میں خوش ہوتے تھے کہ کیس چل جائے، 2012کا کیس ہے ہم چلانا چاہتے ہیں آپ بھاگنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں سیاستدانوں کے نام پر اسکیمیں بنائی جاتی ہیں، اپنے پیسوں سے اسکیمیں بنائیں اور اپنا نام لکھیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس کوتوہین عدالت کانوٹس جاری کریں، جن لوگوںنے پاکستان بنایاان کی قدرنہیں، ٹیکس پیئرز کے پیسے پر اپنا کوئی حق نہیں بنتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آزادی کامطلب آزاد لوگ،ایک کی غلامی سے دوسرے کی غلامی نہیں پکڑنی، اپنی جیب سے پیسے دے کرنام رکھو، عوام کے پیسے لگاکراپنا نام کیسے رکھ رہے ہیں، اس پر اپوزیشن اورحکومت دونوں ایک ہی صفحہ پر ہیں، دونوں ایک دوسرے پر انگلی اٹھارہی ہیں ، سب کواپنا حصہ چاہیے،پاکستان کوبانٹ لیتے ہیں۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ عوام کے پیسے پر ذاتی پروجیکشن چل پڑی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہہ وہ نہیں مان رہے کہ وہ آئین کے تابع ہیں بلکہ یہ مانگ رہے ہیں کہ ہمیںاختیاردے دو۔ چیف جسٹس کاملک جاویداقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت اوراپوزیشن دونوں ایک صفحہ پر ہیں، جوگزشتہ حکومت کر گئی وہی آپ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل 9مئی واقعہ کے اثرات کے حوالہ سے وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شریک ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواحکومت نے درخواست دائر کی ہے جس کا معقول میرٹ ہے تاہم پالیسی کے زریعہ کیس تباہ کرلیا ہے، آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پالیسی بنائی ہے،ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی بجائے سیکرٹری ترقی و منصوبہ بندی نے جواب پر دستخط کئے ہیں، پارلیمان سے ڈرتے کیوں ہیں، جاکربحث کروائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیروں کے لئے لینڈ کروزرخریدی جارہی ہیں ، چین میں وزیرسے لے کر صدر تک سائیکل پر دفترجاتے ہیں، ہم نے شروع بھی لینڈ کروزرسے کیااورختم بھی لینڈ کروزر پر کریں گے، یہ پیسے نالی ، سڑک ، ہسپتال اوراسکول بنانے کے لیئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ میں نے بطورچیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اپنی تختی لگانے سے منع کردیا تھا، کیا چیف جسٹس نے بلڈنگ بنائی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کام پرویزالہیٰ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کررہے تھے وہی کام موجود پنجاب حکومت بھی کررہی ہے۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ لوکل گورمنٹ کے لئے پیسے نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم حکومتوں کو کمزورنہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لوگوں کی ذاتی تشہیر کے لئے کیوں عوام کا پیسہ خرچ کیا جارہاہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیئے، آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے نام پرچیزیں کرو، ان کی ساری زندگی سامنے ہے، بطورملک ان کااحترام کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کیا پنجاب حکومت کے نمائندے موجود ہیں، سندھ اور بلوچستان والوں کو بھی بلالیں آج مسئلہ ہی ختم کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم توہین عدالت کونوٹس جاری کریں، ہمارے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کام کرریں گے اس سے پہنچانے جائیں گے۔ کیا تصویر لگانے سے بڑ ے بن جائیں گے، دنیا میں لوگ خاموشی سے اربوں روپے دیتے ہیں، وزیر بن کر باپ کے نام کی کوئی چیز بنادی، جائیں جا کر اسمبلی سے منظورکروالیں، باپ اوردادا کے نام پر چیزیں بناتے رہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ایک صوبے کونشانہ نہیںبنارہے، اس کام میں سب اکٹھے ہیں، باقی مرنے اورسرتوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ غلطی میںبلوچستان سے کررہا تھا، ساری سیاسی جماعتیں یہ کام کررہی ہیں اس میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بی اماں مسلم لیگ کی واحد سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی واحد خاتون رکن تھیں ان کے نام پر پاکستان بھر میں ایک سڑک دکھادیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بلیغ الزامان چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنے نام سے سڑکین بنانے کی پنجاب میں پریکٹس ہے کہ نہیں؟

چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت سے ہدایات لیں گے یادیں گے، کیاآج رات 12بجے تک یہ ختم ہوجائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کیا کام حکومت اور عدالت کی معاونت کرنا ہے، ہوسکتا ہے کل آپ سروائیو نہ کریں، ہم کہتے ہیں کہ اسمبلی سے منظوری لیں اور کے پی والے کہتے ہیں کہ حکومت کااختیار ہے، اِدھرآپ کا اتفاق رائے ہے، سندھ ، پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور وفاقی حکومت سب کا ذاتی تشہیر کے حوالہ سے اتفاق ہے۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایاز خان سواتی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سندھ سے کوئی نہیںہے۔ اس موقع پر ویڈیو لنک کے زریعہ کراچی رجسٹری سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا سندھ میں کتنے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ اس پر بتایاگیا کہ سندھ میں 80لاء افسران ہیں جن میں 20اییڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور 60اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ کا اسلام آباد میں کوئی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نہیں، بار، بار نشاندہی کے باوجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا سپریم کورٹ میں تقرر نہیں کیا جارہا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں کل 18لاء افسران ہیں، خیبر پختونخوا میں 40لاء افسران ہیں ، پنجاب میں 86لاء افسران ہیں جن تعداد کم کر کے 66کردی گئی ہے جبکہ سندھ میں 80لاء افسران ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کی کیا سندھ نے سب کواکاموڈیٹ کرنا ہے، 5پالاکھ روپے کو 80سے ضرب دیں توکتنے پیسے ماہانہ بنتے ہیں، اتنے صفر ہیں کہ ہمیں آتے نہیں، اس میں بڑے لوگوں کا بھلاہورہا ہے، 4کروڑ روپے ماہانہ اور48کروڑ روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں اس حوالہ سے بات نہیں کی جاتی، تم میری اسمبلی میں اورمیں تمہاری اسمبلی میں اس حوالہ سے بات نہیں کروں گا، اس سے نقصان عوام کاہورہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم لاء افسران کا پبلک سروس کمیشن سے بھرتی کاکہہ دیتے ہیں، ہم حکومت کے اختیارات میں تجاوز نہیں کرنا چاہتے، غریب عوام نے آپ کاکیا گناہ کیا ہے، سندھ کے لاء افسران کے معاملہ کاہم نوٹس لے سکتے ہیں، اس سے سپریم کورٹ کاکام متاثر ہورہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، کیوں عوام کے فنڈ سے اپنی تصویر نام لکھ رہے ہیں، اپنی جیب سے منصوبے بنا کر بڑے بڑے بورڈ لگائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کے سخت مخالف سیاستدان اس معاملہ پر ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ کے 80میں سے 10لاء افسران دکھادیں جو قانون جانتے ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنے فیصلے پر عمل کروانا چاہتے ہیں اورحکومتیں نہیں کروانا چاہتیں توقانونی راستہ اپنائیں۔

چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے دائر درخواست میں ارکان اسمبلی کو فنڈز کی فراہمی کے حوالہ سے معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 18 مارچ 2024کواٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرل کے پی کوعدالتی معاونت کے حوالہ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔خیبرپختونخوا کے جواب پر سیکرٹری پی اینڈ ڈی نے دستخط کئے، اگر ایڈووکیٹ جنرل کے پی اتفاق نہیں کرتے تھے تو اپنا الگ جواب جمع کرواتے۔ عوام کے فنڈز کی آئین کے مطابق منظوری لینی ہے، نہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی خودآئے اورنہ ہی جواب جمع کروانے کی زخمت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے بارے میں بتایاگیا کہ وہ بیمار ہیں،ہم توقع کررہے تھے کہ وہ جواب جمع کروائیں گے جس کے لئے وقت تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے عوام کے پیسے پر سیاستدانوں کی جانب سے اپنی تشہیر کے حوالہ سے فیصلے دیئے ہیں، اپنی تصاویر لگانے اور ذاتی تشہیر کی اجازت نہیں۔ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ، اگرتمام نہیں توزیادہ ترپارٹیاں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ شاہ فیصل الیاس نے عدالت کو یقین دہائی کروائی کہ وہ فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریںگے۔ چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کوفیصلے پر عملدرآمد کی ایڈوائس کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلے پر عملدآمد کے حوالہ سے ضمانت دی جائے۔ فیصلے کی روشنی میں نوٹیفیکیشنز جاری کیئے جائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی اپنے دستخط کے ساتھ دوہفتے میں جواب جمع کروائیں اوراگر کے پی حکومت اپنا الگ جواب جمع کروانا چاہے  توچیف سیکرٹری کے زریعہ جمع کروائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔