مخصوص نشستوں بارے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے معطل ،سپریم کورٹ میں اپیلیں سماعت کے لئے منظور

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی خواتین اوراقلتیوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالہ سے فیصلے معطل کردیئے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن اورپشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کرلیں۔عدالت نے قراردیا ہے کہ اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان قومی اورصوبائی اسمبلی آئندہ قانون سازی میں ووٹ نہیں دے سکیں گے جبکہ ماضی میں ووٹ کے کئے گئے استعمال کو تحفظ حاصل ہو گا۔عدالت کی جانب سے اضافی نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان قومی اورصوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل نہیں کی اور نہ ان کارکن بنے کانوٹیفیکیشن کالعدم قراردیا ہے۔

عدالت نے آئین کے آرٹیکل 51کی تشریح کا سوال اٹھنے پر معاملہ پانچ رکنی یا بڑے بینچ کی تشکیل کے لئے سپریم کورٹ کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کے تحت قائم 3رکنی کمیٹی کو بھیج دیا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصورعثمان اعوان کی جانب سے کیس کی سماعت کے لئے 5رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی گئی۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ہم 3جون سے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے اورفیصلہ کریں گے کیس میں کوئی التواء نہیں دیا جائے گا۔ عدالت نے معاونت کے لئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا۔ جبکہ عدالت نے درخواستوں پر فریقین کو بھی نوٹسز جاری کردیئے۔

جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے لئے عوام اوران کامینڈیٹ اہمیت رکھتاہے کوئی سیاسی جماعت اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ متناسب نمائندگی اور الیکٹورل مینڈیٹ کامعاملہ ہے،کیا زیادہ مخصوص نشستیں بھی لے سکتے ہیں یا اتنی ہی لیں گے جتنا جیتے ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کی ساری اسٹوری ہے جس کاہم نے تحفظ کرنا ہے۔ خالی کامطلب یہ تونہیں کہ کسی کا مینڈیٹ کسی دوسرے کودے دیں۔ز یادتی نظرآرہی ہے، اضافی لوگ جواسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ لوگوں کی نمائندگی نہیں کررہے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ اگر انتخابی نشان نہیں ملتا تووہ بطور سیاسی جماعت انتخاب نہیں لڑسکتی۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اس کے باوجود وہ وہ انتخاب میں حصہ لے سکتی ہے، جس کی جتنی نمائندگی ہے اس کو اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔ کیا عوام کے مینڈیٹ کااحترام کیا جارہا ہے کہ نہیں۔ انتخاب میںکسی سیاس جماعت کی جوتعداد ہوگی اس کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔جس نے 85نشستیں حاصل کیں ان کا حق 85تک محدود رہے گا۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے روز سنی اتحاد کونسل اور اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور خیبرپختونخوااسمبلیوں میں مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے معاملہ پردائر9درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کے توسط سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔سنی اتحاد کونسل کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ ، کنول شوزب کی جانب سے سلمان اکرم راجہ، اسپیکر خیبرپختونخواسمبلی کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل پیش ہوئے۔جبکہ عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان پیش ہوئے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سکندربشیر مہمند بطوروکیل پیش ہوئے۔ جبکہ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد اوردیگر حکام بھی موجود تھے۔ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، پی ٹی آئی رہنمامحمد اعظم خان سواتی، فیصل جاوید خان، شعیب شاہین، کنول شوزب اوردیگر رہنما بھی موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس سید منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ درخواست گزارکون ہے اور کتنی درخواستیں ہیں، سب وکلاء بیٹھ جائیں اور فیصل صدیقی دلائل کاآغاز کریں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 185کے تحت درخواستیں سن رہے ہیں، اگر ہم انہیں سماعت کے لئے منظور کریں گے تواس کے بعد ہوسکتا ہے کہ ہم معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے کمیٹی کو بھجوادیں، دورکنی بینچ بھی بیٹھے گاتووہ پہلے درخواستیں سماعت کے لئے منظورکرے گا۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے 14مارچ2024کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا ہے، معاملہ خواتیں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا ہے، آئین کے آرٹیکل 51کا معاملہ ہے۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحادکونسل نے انتخاب نہیں لڑااس لئے اس نے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالہ سے کوئی فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کروائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا یہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اوراس کاانتخابی نشان بھی ہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ آزاد ارکان سنی اتحاد کونس میں شامل ہوئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 336میں سے کتنے آزاد ارکان ہیں، نتیجہ کب آیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ 58خواتیں اور 9اقلیتوں کی نشستیں ہیں۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے 82ارکان ہیں،یہ پی ٹی آئی سے وابستہ ارکان ہیں جو اپنے انتخابی نشان پر انتخابات نہیں لڑسکے تھے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاو ہ کیااورارکان بھی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی اب بھی لسٹڈ پارٹی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ پارٹی ہے تاہم ااس نے انتخاب نہیں لڑا۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کتنے دن میں آزاد ارکان نے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ متناسب نمائندگی اور الیکٹورل مینڈیٹ کامعاملہ ہے،کیا زیادہ مخصوص نشستیں بھی لے سکتے ہیں یا اتنی ہی لیں گے جتنا جیتے ہیں، اگر کسی نے 10سیٹیں لی ہیں تواس کو کتنی ملیں گی اورکیا اپنی نمائندگی سے زیادہ لے سکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ساراآئین لوگوں کے حقوق سے متعلق ہے، انتخاب میںکسی سیاس جماعت کی جوتعدود ہوگی اس کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن)کی 83نشستیں ہیں توان کو کتنی مخصوص نشستیں ملنی چاہیں، ایک پارٹی نے جتنے ووٹ لئے ہیں اس کی نشستیں مخصوص ہوگئیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس نے 85نشستیں حاصل کیں ان کا حق 85تک محدود رہے گا، ایک پارٹی مجبور ہے کہ وہ انتخاب نہیں لڑ سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیاآئین میں لکھا ہے کہ مخصوص نشستیں دوسروں میں بانٹ دیں۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو جنرل الیکشن میں 4سیٹیں ملیں اورانہیں 10مخصوص نشستیں دے دی گئیں یہ کیارہا ہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی کی 23مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ82نشستوں پر کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں، آپ لوگوں نے رولز نہیں پڑھے رولز میں تقسیم کافارمولاہے۔دوران سماعت مخصوص نشستوں کے حوالہ سے الیکشنز ایکٹ کا رول 92پڑھ کرسنایا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا اس میں کوئی تفریق ہے کہ ایک شخص آزاد لڑتا ہے اورایک لسٹڈ سیاسی جماعت سے لڑتا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا بچنے والی نشستیں دوبارہ پارٹیوں میں تقسیم ہوسکتی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کے سیکشن 104کے تحت کسی کونامزدہی نہیں کیا یہ مسئلہ آرہا ہے ۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ صرف سیاسی جماعتوں کا ہی مخصوص نشستوں کااستحقا ق ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ عوامی مینڈیٹ کی ساری اسٹوری ہے جس کاہم نے تحفظ کرنا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی کے بعد جو نشستیں بچ جائیں گی کیا وہ دوبارہ سیاسی جماعتوں میں بانٹی جائیں گی۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ اگر انتخابی نشان نہیں ملتا تووہ بطور سیاسی جماعت انتخاب نہیں لڑسکتی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا کسی ہائی کورٹ میں معاملہ زیرالتواء ہے۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ صرف سندھ ہائی کورٹ میں زیر التواہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے خود سنی اتحاد کونسل کو بطور پارٹی تسلیم کرلیا ہے توپھر ان کے اپنے مئوقف میں تضاد ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ایک ممبر نے اختلافی نوٹ لکھا کہ دوسری جماعتوں میں نہیں بانٹی جاسکتیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ خالی کامطلب یہ تونہیں کہ کسی کا مینڈیٹ کسی دوسرے کودے دیں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعت کو ملک سکیں اورآزاد کوکبھی مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اس کے باوجود وہ وہ انتخاب میں حصہ لے سکتی ہے، جس کی جتنی نمائندگی ہے اس کو اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سنی اتحادکونسل کے سارے ارکان آزاد ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جو 23مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کوآنی تھیں وہ کیسے تقسیم ہوئیں۔

فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ جمیعت علماء اسلام (ف)کی خیبرپختونخواسمبلی میں 7جنرل نشستیں تھیں اس کو10مخصوص نشستیں الاٹ کردی گئیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی 4جنرل نشستیں تھیں اس کو 6مخصوص نشستیں الاٹ کردی گئیں جبکہ (ن)لیگ کی 5جنرل نشستیں تھیں اوراسے 8مخصوص نشستیں الاٹ کردی گئیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جس کو مینڈیٹ دیا گیا ہے اس کا مینڈیٹ پارلیمنٹ میں شوہونا چاہیئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ مدعاعلیحان روسٹرم پر آجائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جس کو جومیڈیٹ ملا ہے وہ پارلیمنٹ میں ریفلیکٹ ہونا چاہیئے۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے پیش ہوکربتایا کہ درخواستوں میں وفاق کو پارٹی نہیں بنایا گیا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسارکیا کہ کیا الیکشن کمیشن والے آئے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ مئوثر نمائندگی یا کسی اوروجہ سے آزاد ارکان نے سیاسی جماعت میں شرکت کی، آئین کا بنیادی سوال ہے کہ متناسب نمائندگی واقع ہوئی کہ نہیں، ایوان میں اصل عوام کا مینڈیٹ عکاسی نہیں کررہا۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا عوام کے مینڈیٹ کااحترام کیا جارہا ہے کہ نہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے عوام اوران کامینڈیٹ اہمیت رکھتاہے کوئی سیاسی جماعت اہمیت نہیں رکھتی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہویے کہنا تھا کہ ہم وفاق کو 27-A کا نوٹس جاری کررہے ہیں ، ہم روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے معاملہ کافیصلہ کریں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کوسننا چاہتے ہیں، مدعا علیحان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالہ سے دلائل دیں۔ اس کے بعد سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ وقفہ کے الیکشن کمیشن حکام اور اٹارنی جنرل پیش ہوں۔ وقفہ کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھاکہ ان کی مئوکلہ کنول شوزب پشاور ہائی کورٹ کافیصلہ چیلنج کرنا چاہتی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نوٹس کردیتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ ہمارے سامنے کیس ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کوتسلیم کیا جائے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ آئین کہتا ہے کہ ووٹرز کا حق سب سے مقدم ہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی ہونی چاہیئے، جتنے ووٹ لے کرآئے ہیں اتنی ہی نشستیں ملنی چاہیں، 10سیٹیں لے کرآئے ہیں توکیااس کو15نشستیں دے دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جوکام براہ راست نہیں ہوسکتاوہ بلاواسطہ بھی نہیں ہوسکتا۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان کا دلائل میں کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں آزاد ارکان کے لئے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے لئے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ پرانی پارٹیوں کو دینی ہیں نئی جماعت کودینی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کے وکیل روسٹرم پرآجائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ الیکٹوریٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیرمہمند کا کہنا تھا کہ کوئی نشست بچ نہیں گئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو نشستیں بچ گئی ہیں ان کا الیکشن کمیشن نے کیا کرنا ہے۔ سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ لسٹ کے زریعہ بھی ہونا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ کیا یہ متناسب نمائندگی کے خلاف نہیں کہ دوسروں کو نشستیں دے دیں، ہمیں آئین میں دلچسپی ہے نہ اس میں کہ الیکشن کمیشن کیا کرتا ہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے لئے 5شرائط  ضروری ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے قانون وجوبات بتائے بغیر مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کردیں۔ سکندر بشری مہند کا کہنا تھا ضروری ہے کہ بطور سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑا ہو اورکم ازکم ایک نشست حاصل کی ہو، اس کے بعد کے وہ جماعت مخصوص نشستوں کے لئے مستحق ہوگی، سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں۔ ج جسٹس سید منصورعلی شاہ کاسکندر بشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے ایئرکنڈیشنگ آن کروائی تھی، ریلیکس کریں، آپ مائیک سے آگے آجاتے ہیں۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ جو سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں ہیں ان میں مخصوص نشستیں تقسیم کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کیوں الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو بطورسیاسی جماعت تسلیم کیا اور کیسے پارلیمانی پارٹی ڈکلیئرکیا۔ سکندربشیر مہمند کاکہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل عدالت کے سامنے ہے نہ کہ پی ٹی آئی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ کیا یہ چیز سینس بناتی ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی 6نشستیں ہیں اور 200نشستیں آزاد ارکان کی ہیں تومخصوص نشستیں 6نشستیں رکھنے والی جماعت کوالاٹ کردیں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاسکندر بشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں موجود لوگوں نے اس بات پر قہقہہ لگایا ہے، یہ ہلکے پھلکے نوٹ پر ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سب سے بنیادی حق آئین میں ووٹ کاحق ہے، الیکشن کمیشن نے ہرشخص کے ووٹ کاتحفظ کرنا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے ہرآدمی کے ووٹ کا تحفظ کیا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہمیں سوال پیچیدہ لگ رہے ہیں۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ یہ فرسٹ امپریشن کاسوال ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51کی پہلے تشریح نہیںہوئی۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ کا سکندر بشیر مہمندسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے پاس میڈل نہیں ہے ورنہ آپ کو پہنادیتے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 51کی تشریح ہونی ہے، ہم لیو گرانٹ کرنا چاہتے ہیں، اضافی نشستوں کے حوالہ سے ہم پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے معطل کررہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ3جون سے ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرکے ایک ماہ میں کیس کافیصلہ کرلیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کیس میں آئین کی تشریح کا سوال ہے اس لئے معاملہ کی سماعت کے 5رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جائے اورمعاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے تحت قائم 3رکنی کمیٹی کو بھجوایاجائے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ لوگوں نے مخصوص نشستوں پر حلف بھی اٹھالیا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ نارمل پروسیجرچل رہا ہے حکومت کام کررہی ہے، لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے معاملہ کمیٹی کو بھجوادیں گے، ہم پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کررہے ہیں، زیادتی نظرآرہی ہے، اضافی لوگ جواسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ لوگوں کی نمائندگی نہیں کررہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سنجیدہ سوالات کاجواب نہیں آسکا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اضافی نشستوں کے حوالہ سے ہم فیصلہ معطل کررہے ہیں،وہ لوگ ووٹ نہ ہی کریں توبہتر ہوگا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے حکمنامہ لکھواتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے معطل کردیئے اورمعاملہ پانچ رکنی یا بڑا بینچ بنانے کے لئے کمیٹی کوبھجوادیا۔ عدالت نے قراردیا کہ جو ابتدائی طور پر نشستوں کی تقسیم کے بعد مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئے ہم انہیں کچھ نہیں کہہ رہے۔ عدالت نے قراردیا کہ جو اضافی نشستوں پر منتخب ہوئے اورانہوں نے کسی قانون سازی میں حصہ لیا تواس کو تحفظ حاصل ہو گا اورعدالتی فیصلے کا اطلاق مستقبل سے ہوگا۔ عدالت نے قراردیا کہ 3جون سے روزانہ کی بنیادپر کیس کی سماعت کریں گے اور آئین کے آرٹیکل 51اور106کی تشریح کریں گے۔ پشاوروالے کیسز بھی ساتھ ہی لگ جائیں گے۔ قو می اورصوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستوں کے حوالہ سے فیصلہ دیں گے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے 27-Aکا نوٹس جاری کردیا۔ ZS