وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے گندم خریداری سے متعلق اعلانات محض دھوکہ ہیں، لیاقت بلوچ

لاہور(صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ گندم بحران قومی معیشت کے لیے بڑی تباہی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ پہلے پنجاب حکومت نے گندم 3900 روپے فی من کے حساب سے خرید کا اعلان کیا، اب وزیراعظم شہباز شریف نے پاسکو کے ذریعے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا اعلان کیا، لیکن تاحال کوئی خریداری عمل میں نہیں آئی۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے گندم خریداری سے متعلق اعلانات محض دھوکہ ہیں، لاکھوں ٹن گندم کٹائی کے بعد کھیتوں میں پڑی سڑ رہی ہے، کسان سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب اور سندھ کا کسان/ہاری دربدر ہوگیا ہے۔ عوامی احتجاج جاری ہے، وفاق اور پنجاب کی حکومتیں کسانوں سے حسبِ وعدہ سرکاری ریٹ پر گندم خریداری نہیں کرتیں تو 10 مئی سے اِن حکومتوں کی بیحِسی اور زراعت و کسان دشمنی کے خلاف بڑا احتجاج، ریلیاں اور دھرنے شروع کیے جائیں گے۔ وزیراعلی پنجاب اور وزیراعلی سندھ سیکریٹریٹ کی طرف عوام مارچ کریں گے۔

لیاقت بلوچ نے کِسان بورڈ کے قائدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا جماعتِ اسلامی کِسانوں/ہاریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ زراعت اور کِسانوں/ہاریوں کو بچانے کے لیے قومی کردار ادا کریں گے۔ سرکاری گوداموں میں وافر مقدار میں گندم کی موجودگی اور امسال گندم کی بمپر کراپ کے باوجود باہر سے لاکھوں ٹن ناقص گندم منگواکر قومی خزانے کو ایسے وقت میں 1 ارب ڈالر سے زائد قیمتی زرمبادلہ کا ٹیکہ لگایا گیا جب ہم بھاری بھرکم سود پر آئی ایم ایف سے محض 1۔1 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے منتیں کررہے تھے۔

حکمرانوں کی نااہلی، بدانتظامی اور کرپشن نے ملک و مِلت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب گزشتہ 20 دن سے کسان اپنی لاکھوں ٹن گندم لیے کھیتوں میں بیٹھے ہیں اور حکومت گندم خریداری پر غور و فکر کے لیے تاحال کمیٹیاں بنائے جارہی ہیں، یہ بہت بڑی ناکامی ہے۔ اگر موجودہ بحران کے فوری خاتمہ کا حل تلاش نہیں کیا گیا تو ملک ایک بڑے بحران اور احتجاج کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ایک طرف ہماری قومی معیشت کا المناک پہلو یہ ہے کہ قومی سالانہ آمدن 700 ارب روپے جبکہ اخراجات 1450 ارب روپے ہیں۔ اِسی طرح بجلی چوری کی مد میں کم و بیش 600 ارب روپے، اشرافیہ کو دی گئی ٹیکس رعایتوں کی مد میں 500 ارب روپے، مراعات، مفت بجلی، گیس، پٹرول، سفری اخراجات کی مدات میں الگ سے ہزاروں ارب روپے کا خرچ قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے، جس کا خمیازہ بھاری بھرکم بجلی، گیس، پانی بلوں، پٹرول، ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی شکل میں عوام بھگت رہے ہیں۔

حکومت اشرافیہ کی عیاشیاں کم کرنے کی بجائے مسلسل عوام پر مہنگائی بموں کی برسات کیے چلی جارہی ہے۔  طویل عرصے سے عدالتوں میں زیرالتوا 2700 ارب روپے ٹیکس وصولی کے مقدمات کے فیصلے ہوجائیں تو حکومت کے تقریبا دو سال جتنے اخراجات کی رقم ریکور ہوسکتی ہے۔ قومی وسائل پر ڈاکہ زنی اور ناجائز مراعات کا خاتمہ ہوجائے تو پاکستان ورلڈ بنک/آئی ایم ایف کی غلامی سے مستقل نجات اور دوست ممالک سے بار بار بھیک مانگنے سے چھٹکارا پالے گا۔

لیکن اِس بڑے اور مشکل کام کے لیے عزم، استقلال، امانت ودیانت اور جرآت و استقامت پر مبنی قومی جذبہ کی ضروری ہے۔ لیاقت بلوچ نے سعودی عرب سے بڑے تجارتی وفد کی آمد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور ہر میدان میں معیشت کے بڑے امکانات موجود ہیں لیکن بیوروکریسی کے سرخ فیتے اور ریاستی گھن چکروں نے صنعت اور سرمایہ کاری کے راستے مسدود کردیے ہیں۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبہ، سعودی عرب کے ساتھ مضبوط سرمایہ کاری اور ایران کے ساتھ تیل و گیس پائپ لائن منصوبہ کی تکمیل قومی معیشت کی بحالی کا بڑا ذریعہ ثابت ہونگے۔