جو غلط ہوا ہے سپریم کورٹ اس کی توثیق نہیں کر رہی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ریونیو ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ لمیٹڈ،(آرای سی ایچ ایس)راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ساتھ انضمام کے حوالہ سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کی حکومت نے 2005میں اتنا کچھ کردیا کہ اب اس کو واپس کرنا مشکل ہے، مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں کہ کس طرح ساری چیزیں ہوئیں، جو غلط ہوا ہے سپریم کورٹ اس کی توثیق نہیں کررہی، وزیراعلیٰ کا کام بالکل غلط تھا، اب اورلوگوں کے حقوق تخلیق ہوگئے ہیں۔ کیا سوسائٹی انتظامیہ نے اس زمانے کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے خلاف کوئی ایکشن لیا،سوسائٹی نے ان کے خلاف کوئی درخواست دی، جاکرپرچہ کاٹ دیتے، نیب چلے جاتے اور معاہدہ ختم کردیتے۔ پاکستان میں ہے کہ یہ میراوزیر اعلیٰ ہے اوریہ دوسرے کا ہے۔جو معاہدہ کرسکتے ہیں وہ معاہدہ ختم بھی کرسکتے ہیں، سب گند کی جڑسوسائٹی والے ہیں۔ آج تک سوسائٹی نے کچھ نہیں کیا، کسی کے نام درخواست لکھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ زرعی زمین کوشہری مقاصد کے لئے تبدیل کرنے کے معاملہ پر ہم الگ حکم جاری کریں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے ملک احمد نواز ، ریونیو ایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ لمیٹڈ، (آرای سی ایچ ایس)راولپنڈی، چوہدری نصرت حیات ، ریاض الدین احمد اوردیگر کی جانب سے بحریہ ٹائون راولپنڈی کے خلاف اس کے جنرل منیجر ریگولیٹری افیئرز کے توسط سے دائر 5درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے رزاق اے مرزا، بیرسٹر عمراسلم خان، آفتاب عالم یاسر پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے سینئر وکیل حسن رضا پاشا اورصدر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن قیصر امام ایڈووکٹ پیش ہوئے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کتنے پلاٹ رہ گئے ہیں۔ اس پر بحریہ تائون کے وکیل حسن رضا پاشاہ کا کہنا تھا کہ ایک پلاٹ رہ گیا ہے۔ دوران سماعت سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے پیش کرکہا کہ وہ ذولفقار علی ملک کے وکیل ہیں، میرے مئوکل کی درخواست کو بھی اسی کیس کے ساتھ لگادیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظرثانی اس جج کے پاس جاتی ہے جس نے فیصلہ دیا ہوتا ہے۔ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کی درخواست میں سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخترنے فیصلہ دیا تھا۔ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا ازالہ کرتے ہیں تومعاملہ ختم ہوجائے گا۔ حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ بحریہ تائون نے درخواست گزاروں کو قبضہ اورالاٹمنٹ لیٹر دے دیئے ہیں۔ دوران سماعت درخواست گزار ملک احمد نواز کے صاحبزادے روسٹرم پر آگئے۔ وکیل بیرسٹر عمر اسلم خان کا کہنا تھا کہ یہ درخواست گزار کے صاحبزادے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے نارضگی کااظہار کیا اورکہا کہ وہ بیٹھ جائیں، یہ اچھا نہیں لگتا، یہ وکیل کا بھی مناسب کنڈکٹ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار مطالبہ کرسکتے ہیں کہ لندن میں فلیٹ دے دو، ہم نے دیکھنا تھا کہ ناانصافی نہ ہو، ان کی بھی تلافی کروادیں، یاتوجاکرپیسے لے لیں یا ، بی فیئر۔ وکیل نے بتایا کہ ان کے مئوکل نے 5لاکھ 60ہزار روپے جمع کروائے تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنی رقم چاہیئے، سپریم کورٹ کا وقت ضائع نہ کریں۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر عمراسلم خان کو ہدایت کی کہ اپنے مئوکل سے بات کرلیں انہیں پلاٹ چاہیئے کہ نہیں۔ اس پر ملک احمد نواز کے ساحبزادے نے کہا کہ انہیں دیگر درخواست گزاروں کے ساتھ والا پلاٹ دے دیں۔ حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے میں بحریہ ٹائون درخواست گزار کو پلاٹ دے دے گی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم سن کر فیصلہ کریں گے باقی بچنے والے پلاٹ لینا چاہتے ہیں تووہ دے دیں یا رقم بڑھا دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر کر لیں اگر کوئی چیز باہمی اتفاق رائے سے ہوسکتی ہے توکر لیں۔

سماعت کے دوران 6مزید درخواست سامنے آگئے جنہوں نے کہا کہ انہیں ابھی تک نہ پلاٹ ملا ہے اور نہ رقم ملی ہے۔ ا س پر حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ 6درخواست گزار اگلے ہفتے ان سے ملیںوہ ایک ہفتے میں ان کا معاملہ حل کردیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اس حوالہ سے مزید متاثرین ہیں۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد پنجاب حکومت نے دواخباروں میں اشتہاردیا تھا جس کے نتیجہ میں 6درخواست گزارسامنے آئے ہیں جنہیں نہ پلاٹ ملے اور نہ پیسے واپس کئے گئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاکہنا تھا کہ ہم ان افراد کوبحریہ تائون کے پاس بھیج دیں گے۔ خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ جن متاثرین نے حکومت پنجاب سے رابطہ کیاان میں محمد احسن قاضی، محمد محسن، فضل الرحمان، ملک محمد منیر، محمد عظیم قاضی اور طاہرہ خان شامل ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے اس لئے وہ حکم کرسکتی ہیںحکم نہیں کرسکتے کیونکہ اپیل ہمارے پاس آئے گی۔ چیف جسٹس کا کہناتھاکہ سوسائٹی توکاغذ کا ٹکڑا ہے ہم چاہتے ہیںکہ ممبران کو پلاٹ مل جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب کی سابقہ حکومت نے اتنا کچھ کردیا کہ اب اس کو واپس کرنا مشکل ہے، مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں کہ کس طرح ساری چیزیں ہوئیں، جو غلط ہوا ہے سپریم کورٹ اس کی توثیق نہیں کررہی، وزیراعلیٰ کا کام بالکل غلط تھا، اب اورلوگوں کے حقوق تخلیق ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگوں کوزمین اورپیسے مل گئے ہم کیا کریں۔ اس دوران سوسائٹی کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے وکیل رزاق اے مرزاکا کہنا تھا کہ انہوں نے دودرخواستیں دائر کی ہیں ایک درخواست فریق بننے کی اجازت دینے اوردوسری سوسائٹی کے بحریہ تائون کے ساتھ انضمام کو کالعدم قراردے کرسوسائٹی کو دوبارہ بحال کرنے کے حوالہ سے ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ کل 1970درخواست گزارتھے جبکہ سوسائٹی کے پاس 3407کنال زمین تھی باقی بچ جانے والی زمین کہاں گئی۔چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے لیو گرانٹ کردیں یہ کون سی استدعا ہے، مانگ کیا رہے ہیں، بیچ میں تھرڈپارٹی حقوق آگئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ کس نے کیا تھا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹائون اور کرنل صدیق نے معاہدہ کیا تھا، کرنل صدیق سوسائٹی کے لئے اجنبی تھا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا وہ مریخ سے آیا تھا۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے پاس اختیار تھا معاہدہ منسوخ کردیتے،آپ کو منع کون کررہا ہے، آپ کے ہاتھ میں تھا، اس زمانے کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے خلاف کوئی ایکشن لیا، کوئی سوسائٹی نے ان کے خلاف درخواست دی۔ وکیل کا کہنا تھاکہ سوسائٹی ان کے ماتحت تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جاکرپرچہ کاٹ دیتے، نیب چلے جاتے اور معاہدہ ختم کردیتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہ خود ایکشن لیا او رنہ مقدمہ کروایا، بعد میں ہائی کورٹ گئے کہ فریق بنادیں تاہم ہائی کورٹ نے درخواست خارج کردی، آپ کی نالائقی کی وجہ سے ممبران کوسزانہیں ملنی چاہیئے، معاہدہ ختم کردیتے کچھ توکرتے، آپ بہت اچھے ہیں، آپ سب کے ساتھ چلنے والے ہیں، آپ سول رائٹس انوک کرسکتے تھے، جو معاہدہ کرسکتے ہیں وہ معاہدہ ختم بھی کرسکتے ہیں، سب گند کی جڑآپ ہیں۔ چیف جسٹس کاسوسائٹی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ آپ کی نہیں بلکہ ممبرز کی پراپرٹی ہے، آپ ممبرز کی نمائندگی کررہے ہیں، ان کوسوسائٹی یا بحریہ ٹائون دے ان کو پلاٹ یارقم چاہیئے۔

وکیل کا کہنا تھاکہ ڈویژن بینچ کے فیصلے سے میرے ہاتھ بندھے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے کاروائی کرنی ہے جاکرکریں، کوئی درخواست دائر کی، کیا نیب اور اینٹی کرپشن گئے، اس کے خلاف جاکرپرچہ کٹوادیتے، ایک خوف کی فضاء تھی وزیر اعلیٰ کے خلاف کیسے کروں، پاکستان میں ہے کہ یہ میراوزیر اعلیٰ ہے اوریہ دوسرے کا ہے۔ بحریہ ٹائون کے وکیل حسن رضا پاشا کا کہنا تھاکہ 1969میں سے صرف 56بندے رہ گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا سوسائٹی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو کوئی چیز کرنے سے کون منع کررہا ہے جا کرکریں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوہدایات کون دے رہا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ایک کئیرٹیکر کمیٹی بنی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس کا دوبارہ وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو کون ہدایات دے رہا ہے۔ اس پر وکیل کا کہناتھا کہ پہلے عمر جہانگیر اور اب ملک محمد اصغر اعوان ہیں، کنوینر تھا جس نے مجھے وکیل کیا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ رجسٹرارکوآپریٹو سوسائٹیز کے پاس کیوں نہیں گئے۔ اس پر چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ غیر قانونی بندوبست ہے، اصل مسئلہ کی جڑ سوسائٹی والے بھی ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج تک سوسائٹی نے کچھ نہیں کیا، کسی کے نام درخواست لکھنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوسائٹی والے کیا چاہتے ہیں بتادیں، کچھ تولکھیں، ہم ممبران کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سابقہ متروک سوسائٹی نے درخواستیں دائر کیں ۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جوکچھ ہوا ہے ہم اس کی توثیق نہیں کررہے، تاہم لوگوں کو پلاٹ یا رقم دے دی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ سوسائٹی کا ممبران کے بغیر کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا۔سوسائٹی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ متعلقہ فورم پر معاملہ کے حوالہ سے کاروائی کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں درخواستیں واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے دونوں درخواستیں واپس لینے بنیاد پر خارج کردیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوسائٹی جو کچھ کرنا چاہے کرے ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ جبکہ عدالت نے حکم دیا کہ 6بچ جانے والے درخواست گزار آئندہ جمعرات کے روز بحریہ ٹائون کے پاس چلے جائیں اگرانتظامیہ کے ساتھ ان کے معاملات طے پاجاتے ہیں توٹھیک ورنہ وہ عدالت جاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ حسن رضاپاشا سینئر وکیل ہیں امید ہے وہ مسئلہ حل کروادیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زرعی زمین کوشہری
مقاصد کے لئے تبدیل کرنے کے معاملہ پر ہم الگ حکم جاری کریں گے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس حوالہ سے اپنی تجاویز بھی عدالت میں جمع کروئیں۔