ہم نے آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر۔ کیا بسترمرگ پر موجود بیمار آدمی کو گھر سے باہر پھینکنا چاہیئے،کیاآئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ کیوں ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ زمین حاصل نہیں ہوسکتی، اگر صنعتی یونٹ موجود ہے تواس کو خرید لیں۔ ہم اپنے طریقہ سے کیس چلائیں گے ورنہ شام تک کیس چلے گا۔عدالت نے ایل ڈی اے کی جانب سے سرکاری استعمال کے مقصد کے لئے زمین کے حصول کے معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)کی جانب سے اپنے ڈائریکٹر جنرل کی وساطت سے لینڈ اکوزیشن کلیکٹرلاہور اوردیگر کے خلاف دائر چار درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے محمد عثمان عارف جبکہ مدعاعلیحان کی جانب سے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمدشہزاد شوکت، سابق صدور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد اکرم شیخ اور چوہدری محمد احسن بھون پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزارکے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیااتنے سالوں بعد بھی کیس باقی ہے، کون سی زمین کس مقصد کے لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر وکیل محمد عثمان عارف کا کہنا تھا کہ ایل ڈی اے ایونیو 1سوسائٹی کے لئے زمین چاہیئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2002میں زمین حاصل کی، حقائق بتادیں زمین کس مقصد کے لئے چاہیئے تھی، حقائق بتانا سیکھ لیں، حقائق بتائیں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ عدالت میں کھڑے ہیں یہ فیکٹ ہے، ایل ڈی اے کس مقصد کے لئے زمین حاصل کرنا چاہتی تھی یہ فیکٹ ہے، آپ کو زمین کا ٹکڑا چاہیئے مقصد کیا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ حکومتی ملازمین کی رہائش کے لئے جگہ چاہیئے، 1500ایکڑ زمین چاہیئے تھی۔ چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پلیز لارڈشپ ، لارڈشپ کہنا چھوڑ دیں، کیا زمین مل گئی ہے،معاوضہ دے دیا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ معاوضہ دے دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ آپ زمین حاصل نہیں کرسکتے، ہائی کورٹ نے آپ کو کیا تکلیف دی کہ آپ زمین حاصل نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1500ایکڑ میں سے کتنی زمین بچ گئی ہے۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ 60کنال بچ گئی ہے جو کہ 7ایکڑ بنتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کیوں ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ زمین حاصل نہیں ہوسکتی، اگر صنعتی یونٹ موجود ہے تواس کو خرید لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنے طریقہ سے کیس چلائیں گے ورنہ شام تک کیس چلے گا۔چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کھبی نہ کیا کریں کہ معاملہ دوسرے پر ڈال دیں۔وکیل کا کہنا تھا کہ مقدمہ بازی کی وجہ سے ہم زمین حاصل نہیں کرسکے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر اپنے مئوکل پراعتبار نہیں تو وکالت نہ کریں، کیا ہم حقائق کا فیصلہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کرکرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی ویلیو کے مطابق زمین خرید لیں، سپریم کورٹ کا وقت ضائع کررہے ہیں ، ہائی کورٹ کے ایک رکنی اور دورکنی بینچ کا وقت ضائع کرنے پرکتنے ملین جرمانہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا لینڈ اکوزیشن کلیکٹر سرکاری ملازم ہے کیا وہ بدیانت ہے، کیا لینڈاکوزیشن ایکٹ درخواست گزار پر لاگونہیں ہوتا۔ چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پلیز لارڈشپ کہنا بند کردیں اس کی وجہ سے میں دلایل پر فوکس نہیں کرسکتا۔ وکیل نے بتایا کہ لینڈ کلیکٹر نے موقع کا دورہ کر کے بتایا کہ وہاں ایک 8کنال پر گھر بناہوا ہے جس میں ماضی کے اداکار افضال احمد موجود تھے اور وہ بیمار تھے اور بستر مرگ پرتھے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا بسترمرگ پر موجود بیمار آدمی کو گھر سے باہر پھینکنا چاہیئے،

کیاآئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے آئین کاآرٹیکل 24اور25پڑھیں پھر اپنی آئینی پوزیشن بتائیں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کے خلاف چیزیں لکھیں، کیاآپ اخلاقی طور پر درست کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سرکاری استعمال کے حصول کے حوالہ سے پالیسی میں نے بنائی تھی۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ مجھے توکیس میں کوئی چیز نظرنہیں آرہی ہم ہائی کورٹ کے حکم میں کیوں مداخلت کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جتنے مزید دلائل دیں گے ہم اتنا زیادہ جرمانہ کریں گے، ہم نے آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 1493ایکڑ زمین مل چکی ہے صرف 7ایکڑ باقی بچتی ہے۔

چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو رہائش فراہم کرنے کے لئے ضروری سرکاری استعمال قانون کے تحت زمین حاصل کی گئی۔ 29ستمبر2004کو لاہورہائی کورٹ نے فیصلہ دیا جس کے بعد لینڈ اکوزیشن کلیکٹر نے 27دسمبر 2004کو اپنی رپورٹ دی اور بتایا کہ موقع پر صنعتی یونٹ اور گھر بھی موجود ہے۔ عدالت نے قراردیا کہ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے درست طور پر درخواستیں خارج کیں۔ عدالت نے قراردیا کہ دو ہائی کورٹ کے دوفیصلوں میں کوئی غیر آئینی اورغیر قانونی کام نہیں ہوا۔ عدالت نے ایل ڈی اے کی درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردیں۔