سپریم کورٹ ،خیبر پختونخوا پولیس میں آؤٹ آف ٹرن پروموشنز سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم

اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام فریقین کی رضامندی سے خیبر پختونخوا پولیس میں آئوٹ آف ٹرن پروموشنز کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے معاملہ دوبارہ غوراورفیصلے کے لئے متعلقہ حکام کو بھجوادیا۔ عدالت نے قراددیا ہے کہ متعلقہ حکام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں اور خیبرپختونخوااسمبلی کے ایکٹ 2005کی روشنی میں تمام درخواست گزاروں کو سن کر دوماہ کے اندر ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے معاملہ حل کرے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر فیصلہ کے بعد کسی درخواست کے تحفظات برقراررہتے ہیں تووہ خیبرپختونخواسروسز ٹروبیونل سے رجوع کرسکتا ہے۔

جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانونی طور پر آؤٹ آف ٹرن پروموشن کسی ملازم کا حق نہیں ۔ ہم آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت درخواستیں خارج کر دیتے ہیں ۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خیبر پختونخوا میںسابق ایڈیشنل آئی جی پولیس صفوت غیور، ملک سعد اوردیگر پولیس افسران نے شہادتیں پیش کی ہیں، حکومت کو چاہیئے کے پی پولیس کی حوصلہ افزائی کرے، یہ مثالی پولیس فورس ہے ان کی بڑی قربانیاں ہیں۔ کے پی پولیس نے بڑی بہادری اور دلیری دکھائی ہے اور آج بھی لڑ رہی ہے ۔ چاہے سروسز ٹربیونل کا فیصلہ بدنیتی پرمبنی ہو یا اس کا دائرہ اختیار نہ بھی بنتا ہو پھر بھی آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت معاملہ ہائی کورٹ نہیں جا سکتا ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جائے اور اس پر عملدرآمد نہ ہو تو اس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں یا ہائی کورٹ جا سکتے ہیں ۔ یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں تھیں جو چیز براہ راست نہیں ہو سکتی وہ بلاواسطہ بھی نہیں ہو سکتی ۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے خیبر پختونخوا پولیس میں آؤٹ آف ٹرن پروموشنز کے معاملہ پر دائر 41درخواستوں پر سماعت کی ۔ درخواستیں حمید اللہ خان، فضل اللہ،حبیب اللہ خان، خیبرپختونخوا حکومت ، آئی جی خیبر پختونخوا پولیس ، آیت اللہ اور دیگر کی جانب پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں ۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر، شمائل بٹ ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ خیبر پختونخوا شاہ فیصل الیاس، ڈاکٹر عدنان خان، مدثر خالد عباسی اورجنید انور درخواست گزاروں اور مدعا علیحان کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 212 کو کیسے کراس کیا ، مدعا علیہان کو سروسز ٹربیونل جانا چاہیے تھا ہائیکورٹ کیسے آ گئے ، صوبائی یا وفاقی سروسز ٹربیونل کے سامنے آرڈرز کو چیلنج کرتے ، ہائیکورٹ کیسے چلے گئے ،

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے واپس معاملات نظرثانی کے لیے بھجوائے تھے اور نظرثانی ہو گی اس کے بعد ٹربیونل میں جاتے ۔ مدعا علیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ 14 مارچ 2023 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں میرے موکل کے خلاف فیصلہ آیا ، میرے موکل کو آؤٹ آف ٹرن پروموشن ملی تھی ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ اتھارٹی کے آرڈر کے خلاف محکمانہ اپیل دائر کی کہ نہیں ۔اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبائی سروسز ٹربیونل نہیں گئے ، آئین کا آرٹیکل 212 واضح ہے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چاہے سروسز ٹربیونل کا فیصلہ بدنیتی پرمبنی ہو یا اس کا دائرہ اختیار نہ بھی بنتا ہو پھر بھی آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت معاملہ ہائی کورٹ نہیں جا سکتا ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزاروں کے وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے دلائل دیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جائے اور اس عملدرآمد نہ ہو تو اس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں یا ہائی کورٹ جا سکتے ہیں ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا وکیل شمائل بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے موکل کے خلاف کوئی آرڈر پاس نہیں ہوا ۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا شمائل بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ آپ کے کیس میں غلط عملدرآمد ہوا ہے ، وہ تو ٹربیونل دیکھ سکتا تھا ٹربیونل چلے جاتے ۔

دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل الیاس نے پیش ہو کر بتایا کہ سیریل نمبر چار سے آگے سارے کیسز ہمارے ہیں ، ہائی کورٹ میں رٹ قابل سماعت نہیں تھی ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ تمام کیسز ٹرانسفر اور پروموشن سے متعلق ہیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ افسران کو ڈی موٹ کرنے کا کوئی آرڈر جاری ہوا ہو گا ۔اس موقع پرکمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل آئی جی لیگل خیبر پختونخوا محمد آصف خان نے پیش ہو کر بتایا ہر ایک کا اسپیکنگ آرڈر ہوا اس کے بعد آرڈر جاری ہوا ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 21 اپریل 2022 کا ایک آرڈر ہو گیا ہے اس آرڈر کے تناظر میں کوئی خطرہ تھا ، پری میچور کیسے عدالت چلے گئے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن پروموشنز کو ختم کر دیا اس کے خلاف نظرثانی دائر نہیں کی جس سے آئینی سوال ختم ہو گیا ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ اتھارٹی کو آرڈر پاس کرنے دیں ۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عملدرآمد نہیں ہوا تھا تو توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ۔ مدعا علیہان کے وکیل کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 2005 ء کے جس ایکٹ کے تحت ہمیں فائدہ دیا گیا وہ واپس لے لیا گیا ۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر آؤٹ آف ٹرن پروموشن کسی ملازم کا حق نہیں ۔ مدعا علیہان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے سندھ اور پنجاب کی آؤٹ آف ٹرن پروموشنز کو غلط قرار دیا یہ فیصلہ خیبر پختونخوا کا تھا لاگو نہیں ہوتا کیونکہ 2005 ء کا ایکٹ اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 212 واضح پابندی عائد کرتا ہے ، کیا صوبائی اسمبلی کا ایکٹ ابھی بھی فیلڈ میں ہے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈی موشن کا آرڈر ہوا نہیں تو پری میچور طریقہ سے ہائی کورٹ چلے گئے ، ٹربیونل میں بحث کرنا تھی کہ مجھ پر حکم لاگو نہیں ہوتا آپ ہائی کورٹ چلے گئے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بحث کرنی کہاں ہے ہم اس حوالے سے بات کر رہے ہیں ، جہاں جہاں آرڈر پاس نہیں ہوا آرڈر پاس ہونے دیں پھر سروسز ٹربیونل چلے جائیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وکیل خدشے کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں ہو سکتا ہے آپ کے خلاف آرڈر ہی پاس نہ ہو تا ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے تین فیصلوں میں 2003 ء کا ایکٹ کالعدم قرار دیا ہے کہ نہیں ۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے توثیق کر دی توپھر اس عدالت کے سامنے آتے ۔ ایڈیشنل آئی لیگل کے پی نے کہا کہ ہر کیس میں اسپیکنگ آرڈر جاری کیا ہے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سارے لوگ کے پی کے ہیں ، ساروں کااسپیکنگ آرڈر متعلقہ اتھارٹی سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے فیصلوں اور صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کی روشنی میں ایک ماہ میں جاری کرے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں تھیں جو چیز براہ راست نہیں ہو سکتی وہ بلاواسطہ بھی نہیں ہو سکتی ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کچھ ریلیف مل رہا ہے سارا کچھ فریش ہو گیا ، ہائی کورٹ غلط گئے ، ہم ہائی کورٹ کی کارروائی کالعدم قرار دے رہے ہیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کے پی پولیس نے بڑی بہادری اور دلیری دکھائی ہے اور آج بھی لڑ رہی ہے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت درخواستیں خارج کر دیتے ہیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت کو بھی اس معاملے کو دیکھے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے حوالے سے2013،2015اور2017میں فیصلے دئیے ۔

پشاور ہائی کورٹ نے 24 مارچ 2022 ء کو فیصلہ دیا اور چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ 2005 ء ایکٹ کے تحت آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے حوالے سے پالیسی فیصلہ کیا  جائے ، ہائی کورٹ میں اس وقت تک نہیں جا سکتے تھے جب تک اس کے خلاف کوئی آرڈر پاس نہیں ہوتا ۔ پنجاب اورسندھ سے خیبرپختونخوا کی قانونی سکیم مختلف ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ معاملہ متعلقہ اتھارٹی کے سامنے رکھا جائے ، متعلقہ اتھارتی صوبائی قانون، سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ درخواست گزار ایک ماہ کے اندر متعلقہ اتھارٹی کے سامنے پیش ہوں اور متعلقہ اتھارٹی دو ماہ کے اندر ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے معاملہ کا فیصلہ کرے۔ عدالت نے درخواستیں سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ڈی موشن کے حوالہ سے سارے آرڈرز ہم نے ختم کردیئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ملک صفوت غیور، ملک سعد اوردیگر پولیس افسران نے قربانیاں پیش کی ہیں، حکومت کو چاہیئے کے پی پولیس کی حوصلہ افزائی کرے، یہ مثالی پولیس فورس ہے ان کی بڑی قربانیاں ہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سب کچھ نئے سرے سے ہو گا۔