بلوچستان کے مسئلے کا واحد حل سیاسی  مذاکرات  ہیں۔سینیٹر سیدال خان ناصر


لاہور (صباح نیوز)ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سیدال خان ناصرنے بلوچستان کی  تمام قوم پرست جماعتوں کو مذاکرات کی پیش کش کردی  ہم ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہیں سب جماعتیں موقف میں نرمی پیدا کریں   قوم پرست جماعتیں  بلوچستان کی  شراکت دار ہیں، پیشگی مذاکرات کے نکات طے ہونی چاہیں ۔نوازشریف ہمیشہ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ چلے ہیں ۔ اداروں سمیت سب کو بٹھا کر مذکرات کی راہ ہموار کرنی چاہیے ۔

ان خیالات کا اظہار ا نھوں نے عاصمہ جہانگیرکانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔سینیٹر سیدال خان ناصرنے کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل   نکالنا ہوگا واحد راستہ بات چیت ہے  صوبے کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی دور میں اقتدار میں رہیں قوم پرست جماعتوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ  ہر ایک کو بات کرنے کا اختیار  ہے  مگر میں اپنی طرف سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے سینیٹر بننے کے لیے یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے کہیں حاضری نہیں دی، اور یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل 1972 ء سے 2023 ء تک کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہی اب اسے نوکری سمجھیں اسے نمائندگی سمجھیں ہر ایک  کی اپنی سوچ ہے، بہرحال یہ حکومتوں میں اتحادی رہے میرے قائد نواز شریف کے بھی اتحادی رہے اور نواز شریف نے ہر وقت بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی ۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتوں سے اپیل کی کہ یقیناً وہ صوبے کی اہم شراکت دار ہیں بلوچستان کے مسئلے کا حل ایک ہی ہے جو سیاسی  مذاکرات  ہیں ۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ہر قومی جماعت کو اس کی کوشش کرنی چاہیے اور قومی جماعتیں اس کے لیے کوشش کر بھی رہی ہوں گی ۔سیاسی اپروچ سے بلوچستان کے مسئلے کا  حل نکلنا چاہیے ۔ زیادتیوں کو فراموش کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے یقیناً ان پر بات ہو سکتی ہے مگر ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرنا ہو گا اور واحد حل سیاسی مذاکرات ہیں بات کی  جانی چاہیے قوم پرست جماعتوں کو ماضی کے  معاملات کو نظر انداز  کرتے ہوئے نرمی پیدا کرنی چاہیے 2018 ء اور 2024 ء دونوں انتخابات پر سوالات اٹھے لیکن 2018 ء میں تو ڈاکٹر عبد  المالک بلوچ کی جماعت  ، باپ پارٹی کے بعد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اکثریت ملی ہم سہولتکاری کے لیے تیار ہیں ہر جماعت کو سہولت فراہم کرنی چاہیے کیونکہ بلوچستان سنٹرل ایشیاء کی کولیڈور ہے سینیٹر سیدال خان ناصر نے تجویز دی کہ تمام متعلقہ اداروں اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں عدلیہ سمیت سول سوسائٹی کو بٹھا کر مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چاہیے اور مسئلے کا  حل نکالنا چاہیے ۔

بلوچستان کے سابق وزیراعلی نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بالادستی سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے، سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے مقتدرہ کو طاقت ملی ہے، سیاسی جماعتوں میں موروثیت موجود ہے جسے ختم ہونا چاہیے  ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاسی عزم ضروری ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی عمل کو ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے مقتدرہ کے ساتھ مل کر نقصان پہنچایا۔انھوں  نے کہا کہ اسلام اباد کو بلوچستان کے وسائل بڑے پیارے لگتے ہیں لیکن بلوچ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اتنے بڑے ملک و سماج کو بغیر قانون کے نہیں چلایا جاسکتاہے،پاکستان کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں موروثی ہیں اس موروثیت نے ریاستی ڈھانچے کو کمزورکیاہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف ایک ادارہ مضبوط ہے جیسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے وہ اسٹبلشمنٹ ہے۔ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ جیسا کمزور ادارہ تاریخ میں نہیں دیکھا ہے اس وقت ملکی آئین خود تحفظ مانگ رہا ہے۔بلوچستان سمیت ملک بھرمیں انتخابات کی منڈی لگائی گئی خرید وفروخت کی منڈی لگادی گئی تھی۔ مقبول عوامی رہنماؤں کو پارلیمنٹ سے آؤٹ کرکے اس میں ایسے لوگ لائے گئے جو نہ سیاسی ہیں نہ ہی ان کا عوام سے کوئی تعلق رہا ،بھاری رقم کے عوض نشستوں کا سودا کیا گیا  جو سیاسی تاریخ کا شرم ناک ترین باب ہے۔ڈاکٹرعبدالمالک نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی استحکام کیلیے آئین کی عملدرآمد کویقینی بنایا جائے، سیاسی عمل پر رکاوٹیں نہ ڑالی جائیں سیاسی جماعتوں میں موروثیت ختم کی جائے اور کسی ایک ادارہ کی بالادستی کے بجائے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرکے پارلیمنٹ کے سامنے سب کو جواب دہ بنایا جائے۔ ناراض بلوچوں کے ساتھ مزاکرات کے لیے موجودہ حکومت کی بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد کا مجموعی مائنڈ سیٹ سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سب بلوچستان کے مسئلے کو سطحی دیکھتے ہیں بلوچستان کے مسئلے میں سیاسی و معاشی پہلو آپس میں جڑے ہوئے ہیں، سیاسی پہلو میں بلوچستان کے عوام کو ووٹ کا حق حاصل ہو اور رائے دینے کی آزادانہ حق سے محروم نہ رکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے جہاں مختلف اقوام اپنی جغرافیہ اور ثقافت اور تاریخی پس منظر سے آباد ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک کے سوا کسی قوم کا تشخص قبول نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کچھ ایلیٹ کو نواز کر ہر الیکشن میں انہیں وفاقی پارٹیوں میں ہانکا جاتا ہے اور انہی کے زریعے بلوچستان میں حکومت بنائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی حل کے بجائے اسٹیٹجیکل بنیاد پر حل کرنے کی سوچ نے حالات کو مذید گھمبیر بنا دیا ہے۔سوئی، سینڈک اور ریکوڈک کے ساتھ کیا ہوا چاغی میں آج بھی لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں، وزارت اعلی کے دور میں پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور تائید کے ساتھ ہم نے شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت مینڈیٹ کے ساتھ شروع کی مگر 60 فیصد نتیجہ خیز بات چیت کے بعدایک حلقے نے اس میں رکاوٹ ڈال کر مزاکرات کو ناکام بنا دیا۔