یہ ہمارے معاشرے کا منفی پہلو ہے کہ ہمیں خواتین کے حقوق کا پاس نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کی یہ ہمارے معاشرے کا منفی پہلو ہے کہ ہمیں خواتین کے حقوق کا پاس نہیں، انہیں بسا نہیں سکتے توان کے خلاف اتنی مقدمہ بازی نہ کریں۔ ہردرخواست گزار کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا وقت قیمتی ہے اوراس حوالہ سے احتساب بھی ہونا چاہیئے، بے بنیاد مقدمہ بازی کی وجہ سے ہماری عدلیہ گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، کیا یہ کسی کے لئے مناسب ہے کہ عدالتوں کے ساتھ غلط بیانی کرے، سی آرپی سی کی دفعات کے تحت درخواست گزارکے خلاف کاروائی کے لئے یہ مقدمہ ٹرائل کورٹ کو بھجوادیتے ہیں، درخواست گزارایک بیوہ کی جائیدادکادعویٰ کررہا ہے اور اس میں تسلیم کررہاہے کہ وہ کرایہ دار ہے۔سپریم کورٹ دوبارہ شواہد کاجائزہ نہیں لے گی، سپریم کورٹ کسی ایسی دستاویز کا جائزہ نہیں لے گی جو پہلے جمع نہ کروائی گئی ہو، درخواست گزار کے وکیل ایسی دستاویز دکھارہے ہیں جو کبھی عدالتی ریکارڈ پر جمع نہیں کروائی گئی۔ہم سپریم کورٹ میں کیس کے میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتے۔

جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس عرفان سعادت خا ن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 3میںمختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے محبت خان اوردیگر کی جانب سے صاحبزاداہ روح الامین عارف اوردیگر کے خلاف زمین پر قبضہ کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عوامی مفاد کا کون ساسوال ہے کہ سپریم کورٹ تین عدالتوں کے فیصلوں پر نظرثانی کرے، سپریم کورٹ دوبارہ شواہد کاجائزہ نہیں لے گی، تین عدالتوں نے یہ چیزیں دیکھ لیں ، سپریم کورٹ کسی ایسی دستاویز کا جائزہ نہیں لے گی جو پہلے جمع نہ کروائی گئی ہو، درخواست گزار کے وکیل ایسی دستاویز دکھارہے ہیں جو کبھی عدالتی ریکارڈ پر جمع نہیں کروائی گئی۔

عدالت نے درخواست خار ج کردی۔ جبکہ بینچ نے ایس ایم نسیم کی جانب سے ضیاء الدین اوردیگر کے خلاف 63لاکھ روپے کی ریکوری کے حوالہ سے دائر دعویٰ پر سماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے رعنا خان بطور وکیل پیش ہوئیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 63لاکھ روپے رقم کا معاملہ ہے، میرٹ پر فیصلہ کیا جائے نہ کہ تکنیکی بنیادوں پر۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے استفسار کیا کہ کیا وکیل کے لائسنس کی منسوخی کے لئے سندھ بار کونسل کودرخواست دی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں کیس کے میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے محمد عمیر افضل کی جانب سے مسمات سمیرہ کلثوم اوردیگر کے خلاف جہیز کے سامان کی ریکوری اورنان نفقہ کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے درخواست گزارکے وکیل محمد عدیل ارشد سے اسفسار کیا کہ شادی کتناعرصہ برقراررہی۔

اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 6ماہ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بچیوں کی شادی کے لئے لوگ تھوڑا، تھوڑا کرکے سامان بناتے رہتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ نان ونفقہ کا معاملہ ماتحت عدالتیں طے کرتی ہیں اور اعلیٰ عدالتیں اسے نہیں چھیڑتیں، درخواست گزار کودولاکھ روپے جرمانہ ہوا تھا وہ اداکیا کہ نہیں، یہ انتظامی آرڈر ہے جو کبھی بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ دوبھائیوں نے دوبہنوںکے ساتھ شادی کی اوردونوں کو طلاق دی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیوں عدالت درخواست منظور کرے۔ وکیل کا کہناتھا کہ ہم نے جرمانے کو چیلنج کیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جب دلہن کی ڈولی آئی تھی تواس کے ساتھ سامان کی کوئی لسٹ بھی دی تھی کہ نہیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں دی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کیجانب سے سامان کی قیمت بڑھا چڑھا کر بتائی گئی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم نوٹس جاری نہیں کریں گے اور عدالتی وقت کا خرچ درخواست اداکریں گے ہم آئندہ سماعت پر فیصلہ کریں گے کہ درخواست قابل سماعت ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ہم رقم اداکرنے کے لئے تیار ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے جرمانہ کیا، جرمانہ برقراررہے گا۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ اگر درخواست جرمانہ ادانہیں کرے گاتوہم حکم دیں گے کہ درخواست گزارکی جائیداد بیچ کر جرمانے کی رقم وصول کی جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جرمانہ اپنی جگہ برقراررہے گا اورہائی کورٹ کا فیصلہ فیلڈ میں رہے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے لئے کیس جیتنا ناممکن ٹاسک ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ وہ درخواست واپس لیتے ہیں۔ اس دوران درخواست گزار کے والد نے روسٹرم پر عدالت سے استدعا کی کہ وہ غریب آدمی ہے اس کا خیال کیا جائے۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ جس کی بیٹی تھی وہ بھی غریب آدمی ہی تھا جس سے زیادتی کی گئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے معاشرے کا منفی پہلو ہے کہ ہمیں خواتین کے حقوق کا پاس نہیں، انہیں بسا نہیں سکتے توان کے خلاف اتنی مقدمہ بازی نہ کریں۔ جبکہ بینچ نے محمد اعظم کی جانب سے حلیمہ بی بی اوردیگر کے خلاف جائیداد کی ملکیت کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کیس میں مثالی جرمانہ لگانا چاہیئے، کتنا جرمانہ عائد کرکے درخواست کو خارج کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہردرخواست گزار کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا وقت قیمتی ہے اوراس حوالہ سے احتساب بھی ہونا چاہیئے، بے بنیاد مقدمہ بازی کی وجہ سے ہماری عدلیہ گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، کیا یہ کسی کے لئے مناسب ہے کہ عدالتوں کے ساتھ غلط بیانی کرے، سی آرپی سی کی دفعات کے تحت درخواست گزارکے خلاف کاروائی کے لئے یہ مقدمہ ٹرائل کورٹ کو بھجوادیتے ہیں، درخواست گزارایک بیوہ کی جائیدادکادعویٰ کررہا ہے اور اس میں تسلیم کررہاہے کہ وہ کرایہ دار ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھاکہ سب سے بہتر راستہ درخواست گزارکے لئے یہ تھا کہ وہ عدالت سے تین یا چھ ماہ کا وقت لیتا اور مکان خالی کردیتا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وہ جگہ خریدی ہے جہاں وہ رہ رہا ہے تو پھر وہ فوری طور پر خالی کرے گااورپھر قبضہ لے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتی پراسیس کے غلط استعمال پر معاملہ متعلقہ عدالت کو معاملہ بھجوادیتے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔