وسائل اور تکنیکی تعاون سے ہی سیمنٹ سیکٹر کی ڈی کاربنائزیشن ممکن ہے، ماہرین

اسلام آباد( صبا ح نیوز )وسائل کو متحرک کرنے اور تکنیکی تعاون کو بہتر بنا کر ہی صنعتی شعبے سے کاربن کے اخراج میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ دنیا قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کیا جا رہاہے۔تعلیمی ادارے، صنعت اور تھنک ٹینک شعبوں کی ڈی کاربنائزیشن کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے یہاں سیمنٹ سیکٹر ڈی کاربنائزیشن اسٹڈی کے اجراء کے موقع پرکیا۔ تقریب کا اہتمام پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویل ڈیولپمنٹ (پی آر آئی ای ڈی) نے مشترکہ طور پر کیاتھا ۔ ایس ڈی پی آئی کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیمنٹ کی پیداوار کے میکانزم کو ڈی کاربنائز کرنے کیلئے مضبوط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی نے ڈی کاربنائزیشن پالیسی کے حوالے سے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی دستاویزات حکومت، پالیسی سازوں، صنعت کے نمائندوں اور دیگر کے لئے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے پروفیسر ڈاکٹر محمد فہیم کھوکھر نے اپنی پریزنٹیشن میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے صنعتی ڈی کاربنائزیشن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ سیمنٹ سیکٹرسے عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ  کا اخراج 1.1 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہا ہے، جو خطرناک ہے۔ ڈاکٹر کھوکھر نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور جیواشم ایندھن پر مبنی توانائی پر انحصار کم کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیمنٹ سیکٹر کے بعد سٹیل سب سے بڑا کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا شعبہ ہے ۔ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویل ڈیولپمنٹ (پی آر آئی ای ڈی) کی قرة العین نے صنعتی ڈی کاربنائزیشن کے نیٹ صفر کی طرف جانے کے راستوں پر روشنی ڈالی۔ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیاء نے پالیسی سفارشات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایندھن کی سپلائی چین میں ممکنہ تبدیلی کی لاگت کا انتظام صنعت کی سہولت کے لئے بہت ضروری ہے۔ایس ڈی پی آئی کی ریسرچ ایسوسی ایٹ صالحہ قریشی نے شرکاء کو مطالعہ کی ضروریات اور شعبے کی مخصوص تفصیلات سے آگاہ کیا۔ رینیوایبلز فرسٹ کے عبدالباسط نے کہا کہ پالیسی دستاویزات میں دی گئی تجاویز کی کثرت کے درمیان توجہ کو یقینی بنانے کے لئے ترجیحی سفارشات کو شارٹ لسٹ کرنا ضروری ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے اس شعبے میں ڈی کاربنائزیشن کے بارے میں مصنفین اور محققین کے قابل ذکر مطالعات کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو پرائڈ، نسٹ اور ایس ڈی پی آئی اسٹڈیز میں پیش کردہ ٹھوس حل کی ضرورت ہے۔وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کے ڈاکٹر ضیغم عباس نے بتایا کہ وزارت میں کلائمیٹ فنانس ونگ قائم کیا گیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) نے تین مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز کی منظوری دیدی ہے۔ پی آر آئی ای ڈی کے سی ای او بدر عالم نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ماحولیاتی اقدامات کریں۔