یوسف رضا گیلانی: ضلع کونسل سے وزارتِ عظمی اور پھر سینیٹ کی چیئرمین شپ تک کا سفر

اسلام آباد(صباح نیوز)یوسف رضا گیلانی منگل کو بلامقابلہ چیرمین سینٹ منتخب ہوگئے ،یوسف رضا گیلانی  جب 2012 میں بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے تو بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ ان کا سیاسی کریئر مزید آگے نہیں بڑھ سکے گا لیکن 12 برس بعد وہ ملک کی ایسی پہلی سیاسی شخصیت بن گئے ہیں جو اپنے کریئر میں ملک کے وزیراعظم، قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین جیسے تین بڑے عہدوں پر فائز رہی ہو۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق  نو مارچ کو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور موجودہ حکومت کی تشکیل کے وقت طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔تحریکِ انصاف کی جانب سے اس الیکشن کے بائیکاٹ کے فیصلے کے بعد اس انتخاب میں ان کے مقابلے میں کسی امیدوار نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کروائے اور یوں یوسف رضا گیلانی بلامقابلہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ہیں۔یہ دوسرا موقع ہے کہ یوسف رضا گیلانی ایوانِ بالا کی چیئرمین شپ کے امیدوار تھے۔ اس سے قبل 2021 میں انھیں اس وقت کی متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم نے امیدوار نامزد کیا تھا تاہم صادق سنجرانی کے ہاتھوں انھیں شکست ہوئی تھی۔سابق صدر جنرل ضیا الحق کی آمریت میں عملی سیاست کا آغاز کرنے والے گیلانی ماضی میں پاکستان کے 18ویں وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ سنہ 2012 میں سپریم کورٹ نے انھیں اپنے دور کے پانچویں سال میں برطرف کیا تھا۔ملتان کے ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نو جون سنہ 1952 کو جنوبی پنجاب کے ایک ایسے جاگیردار پیر گھرانے میں پیدا ہوئے جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔

ملتان کی درگاہ حضرت موسی پاک کا گدی نشین ہونے کی بنا پر ان کا خاندان مریدین یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ان کے دادا سید غلام مصطفی رضا شاہ گیلانی تحریک پاکستان کے رہنماں میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے کبھی کسی انتخاب میں شکست نہیں کھائی۔ان کے والد کا نام سید علمدار حسین گیلانی ہے جبکہ معروف سیاست دان حامد رضا گیلانی ان کے رشتے کے چچا تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی مسلم لیگ فنکشنل کے سابق سربراہ اور ساتویں پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ دوئم سے بھی رشتے داری ہے جن کی پوتی یوسف رضا گیلانی کی بہو ہیں۔یوسف رضا گیلانی نے 1976 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔انھوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز سنہ 1978 میں اس وقت کیا جب انھیں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن چنا گیا اور سنہ 1982 میں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔

یوسف رضا گیلانی نے 1983 میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے موجودہ رہنما سید فخر امام کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوئے۔سنہ 1985 میں انھوں نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاوسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے بنائے گئے۔سنہ 1988 میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے مدمقابل میاں نواز شریف کو شکست دی جو ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر امیدوار تھے۔ان انتخابات میں کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی ایک مرتبہ پھر وفاقی کابینہ کے رکن بنے اور اس مرتبہ انھیں بینظیر بھٹو کی کابینہ میں سیاحت اور ہاوسنگ و تعمیرات کی وزارت ملی۔یوسف رضا گیلانی 1990 کے انتخاب میں تیسری مرتبہ رکن اسمبلی بننے اور 1993 میں صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کی نگران کابینہ میں انھیں بلدیات کا قلم دان سونپا گیا۔سنہ 1993 کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی چوتھی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

انھوں نے اپنی سپیکر شپ کے دوران قائم مقام صدر کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ماضی میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود یوسف رضا گیلانی فروری 1997 میں ہونے والے انتخابات میں ناکام رہے۔سنہ 1998 میں انھیں پیپلز پارٹی کا نائب چیئرمین نامزد کر دیا گیا لیکن دسمبر 2002 میں انھوں نے اپنے بھانجے اور رکن قومی اسمبلی اسد مرتضی گیلانی کی جانب سے پیپلز پارٹی میں بننے والے فارورڈ بلاک میں شامل ہونے پر پارٹی کے عہدے سے استعفی دے دیا۔سیاسی کریئر کے دوران یوسف رضا گیلانی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں نیب نے ریفرنس دائر کیا اور راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر سنہ 2004 میں یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 300 ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تاہم سنہ 2006 میں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی۔

یوسف رضا گیلانی نے اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران اپنی یادداشتوں پر مبنی پر ایک کتاب ‘چاہ یوسف سے صدا’ بھی لکھی۔وہ فروری سنہ 2008 کے انتخابات میں ملتان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے بعد ابتدا میں یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمی کے لیے مضبوط امیدوار گردانا نہیں جا رہا تھا اور پنجاب سے ممکنہ امیدوار کے طور پر احمد مختار کا نام خبروں میں تھا۔تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے انھیں 22 مارچ 2008 کو ملک کے نئے وزیراعظم کے لیے نامزد کر دیا۔ اس کے ایک دن بعد 24 مارچ کو نو منتخب قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو نیا قائدِ ایوان منتخب کر لیا اور 26 مارچ کو انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور وہ چار سال ایک ماہ اور ایک دن تک اس عہدے پر فائز رہے۔وہ بلخ شیر مزاری کے بعد سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیرِ اعظم تھے جبکہ اس سے پہلے سرائیکی بیلٹ سے بلخ شیر مزاری نگران وزیرِ اعظم بنے تھے۔

چار سالہ دورِ اقتدار میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت اور ملک کی عدلیہ کے درمیان اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر کشیدگی جاری رہی اور سپریم کورٹ کی یہی ‘حکم عدولی’ ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بھی بنی۔اپنی نااہلی کے دوران وہ عملی سیاست سے کافی حد تک دور رہے مگر ان کے خاندان کے افراد انتخابات میں بطور امیدوار نظر آئے۔ نااہلی کی مدت ختم ہونے پر انھوں نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا۔ ملتان میں این اے 158 سے پی ٹی آئی کے محمد ابراہیم خان کے مقابلے انھیں شکست ہوئی تھی۔2021 میں سینیٹ کے انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدوار اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دینے کے بعد یوسف رضا گیلانی پہلی بار ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے تھے اور حزبِ اختلاف نے مشترکہ طور پر انہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔آٹھ فروری 2024 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی حلف اٹھایا اور سینیٹ کی نشست سے استعفی دیا تھا تاہم بعد ازاں اسی نشست پر وہ دوبارہ سینیٹ کے الیکشن میں شریک ہوئے اور پھر کامیاب ہو کر سینیٹر بن گئے،