کل ایک دوست کے ہاں افطاری پر کچھ صاحبانِ دانش اکٹھے ہوئے جن میں کچھ ریٹائرڈ سفارتکار تھے، کچھ سابق انتظامی افسران اور کچھ عسکری اور عدالتی ماہرین۔
ضروری ہے کہ میٹنگ کے اختتام پر جو مشترکہ اعلانیہ جاری ہوا وہ بھی قارئین کے ساتھ شیئر کردیا جائے۔ شرکا نے متفقہ طور پر پنجاب حکومت کے اہلکاروں کی طرف سے اربوں روپے کی لاگت سے آٹے کے تھیلے زمینداروں اور ٹھیکیداروں کے گھروں میں پہنچانے کے اقدام کو ہر پہلو سے سراہا۔
پہلی بات یہ کہ عوام نے صرف اللہ نگہبان کا لفظ سن رکھا تھا، پنجاب حکومت نے تھیلے پر لفظ نگہبان لکھ کر نگہبانی کا کام خود سنبھال لیا ہے اور اس کا آغاز دس کلو آٹے سے کیا ہے۔ توقع ہے کہ باقی ماندہ رزق بھی آٹے کے تھیلوں کی طرح مخلوقِ خدا کو پہنچنا شروع ہوجائے گا۔
معلوم ہوا ہے کہ آٹا پٹواری صاحبان کی کئی دھائیاں پرانی محنت سے تیار کردہ لسٹوں کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے لہذا آٹے کے حقدار صرف وہی قرار پائے ہیں جو بعداز ادائیگی نذرانہ، پٹوار خانے کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مقدس مشن چونکہ مال طلب تھا اس لیے غریب غربوں کو اس فہرست کے قریب نہیں پھٹکنے دیا گیا اور اگر کہیں کوئی شامل ہونے میں کامیاب ہو بھی گیا، تو دس کلو آٹا دیتے ہوئے دس عدد افسروں نے اس کے ساتھ زبردستی تصویر بنوائی ہے جس سے اس کی حسِ حرمت کو کچل کر حسِ غربت کو اس طرح بیدار کرنے کا بندوبست کیا گیا کہ وہ آٹے کا نام سنتے ہی توبہ کر اٹھتا ہے۔
کچھ سازشی قسم کے لوگ حکومت کو یہ بھی مشورے دیتے رہے کہ اربوں روپے کا آٹا تقسیم کرنے کے بجائے اس رقم سے ہر ضلع میں ٹیکنیکل ٹریننگ کا ایک ایک بہترین ادارہ بنایا جائے یا ہمسایہ ملک کی طرح پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جیسے دو تین ادارے قائم کیے جائیں، مگر ایسے مشوروں کو مسترد کرکے حکومت نے نہایت احسن فیصلہ کیا ہے کیونکہ اگر ایسے ادارے قائم ہوتے تو ان اداروں سے ہنر سیکھ کر نوجوان پاؤں پر کھڑے ہوجاتے یا ہنر مند بن کر دوسرے ملکوں میں چلے جاتے تو سرکاری افسران آٹا تقسیم کرتے ہوئے تصویر کن کے ساتھ بنواتے؟
حکومت کو تہہِ دل سے خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد شرکا نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ جس طرح پنجاب حکومت دس دس کلو آٹا دے کر غریب اور متوسط طبقے کی نگہبانی کررہی ہے، اسی جذبے کے تحت وفاقی حکومت ایلیٹ کلاس اور مقتدرہ کی نگہبانی کا فریضہ سنبھال لے گی۔ اس ضمن میں چند فوری نوعیت کے اقدامات ایسے ہیں جن کا آغاز رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہی ہوجانا چاہیے۔ اس ضمن میں شرکا کی متفقہ رائے ہے کہ سب سے پہلے حلف کا تکلف ختم کردینا چاہیے۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وزیروں، الیکشن کمیشن کے افسروں اور عدالتی، سول اور عسکری عہدوں کے لیے حلف اٹھانے کو انگریز سامراج کی شروع کی گئی بدعت قرار دے کر اسے فورا ختم کردے۔ حلف کی عبارت میں انصاف ایمانداری اور غیر جانبداری وغیرہ کی باتیں لکھی ہوتی ہیں جو ہمارے ماحول، ضروریات اور روایات کے سراسر منافی ہیں۔ یہ چونچلے گوروں کے معاشروں میں چل جاتے ہوں گے، یہاں تو ایسی باتیں حلف بردار کو شرمسار کرنے کا ہی موجب بنتی ہیں۔
وزیروں کے اخرجات ہی دیکھ لیں،بے تحاشا ہیں، ایم این اے بننے کے لیے بھی کروڑوں روپے لگانے پڑتے ہیں، پھر وزارت کے اپنے تقاضے الگ ہیں۔ فی نکاح دو ہزار روپے نیوندرا دیا جائے تو بھی پورے حلقے میں شادیوں پر لاکھوں روپے ماہوار خرچ ہوجاتے ہیں۔ اب اگر کوئی خوشحال اور کھاتی پیتی پارٹی اپنی فائل نکلوانے کے لیے کچھ نذرانہ پیش کرتی ہے اور فریقِ ثانی یہ سوچ کر قبول کرلیتا ہے کہ بالآخر یہ رقم بھی ووٹروں یعنی اس ملک کے شہریوں کی خدمت خاطر اور ان کے بچوں کی شادیوں وغیرہ پر ہی لگنی ہے، تو اس میں کسی کو کیا تکلیف ہے! مگر حلف کی تحریر اس سے بھی روکتی ہے۔
سیاست کے اپنے تقاضے ہیں جس کے تحت عزیزوں دوستوں کو بھی نوازنا ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے الیکشن پر لاکھوں روپے لگائے ہوتے ہیں مگر حلف اسے اقربا پروری کا نام دے کر اس سے بھی منع کرتا ہے۔ مقامی سیاست کے ماحول اور روایات کے مطابق کبھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف پرچے بھی کروانے ہوتے ہیں اور اگر وہ زیادہ تنگ کررہے ہوں تو انھیں اندر بھی کروانا پڑتا ہے۔ ایسا کریں تو صحافی لوگ وزیروں کو حلف کی خلاف ورزی کرنے کے طعنے دینے لگتے ہیں۔
یہی حلف معزز جج صاحبان اور سول وعسکری عہدوں کے لیے بھی بار بار خجالت کا باعث بنتا رہتا ہے، لہذا بہتر ہے کہ حلف کی رسم ہی ختم کردی جائے۔ حلف کی بدعت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد کچھ اور اصلاحات بھی کرہی لینی چاہیئیں۔ میٹنگ کے شرکا کی اکثریت اس حق میں تھی کہ ووٹ ڈالنے اور گننے کا انتہائی مہنگا اور فرسودہ طریقہ بھی ختم کردینا چاہیے۔ جب اقتدار کا فیصلہ بیلٹ کے بجائے بلٹ سے ہواکرتا تھا، اور حکومت بنانے کا فیصلہ پرچی کے بجائے برچھی سے ہوتا تھا تو اس وقت بننے والی حکومتیں مستحکم بھی ہوتی تھیں اور دیرپا بھی۔
لہذا یہاں بھی ڈبے رکھوانے اور لوگوں سے پرچیاں ڈلوانے کی ایکسرسائز ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں، یہ کام الیکشن کمیشن سمیت کچھ معزز اداروں کو خوامخواہ متنازعہ اور شرمندہ کرتا ہے۔ لہذا اس بدعت کا بھی جتنی جلدی ممکن ہو خاتمہ ہی کردیا جائے۔ ہر پارٹی کے اپنے بدمعاش یعنی انڈرورلڈ ونگز ہوں۔ بندوقوں اور برچھیوں کی مدد سے جو پارٹی یا گروہ ایوانِ حکومت پر قبضہ کرلے، حکومت اسی کی ہو۔ کوئی پارٹی یا گروہ جب حکومت پر قبضہ کرلے تو اپنے ذاتی بدمعاشوں سے انتطامیہ، پولیس اور پٹوار وغیرہ کا کام لینا شروع کر دے۔
اس سے دو فوائد ہوں گے ایک تو یہ کہ افسروں کی بھرتی حکومت کی نہیں مختلف پارٹیوں کی اپنی ذمے داری ہوگی اور مقابلے کے امتحانات وغیرہ کا چکر بھی ختم ہوجائے گا۔ اگر چہ اِس وقت بھی ایسا ہی ہورہا ہے اور نوے فیصد افسروں کا کردار حکومتی پارٹی کے ذاتی ملازموں کا ہی ہے مگر حکومت کی smooth functioning کے لیے ضروری ہے کہ دس فیصد اختلاف کی گنجائش بھی ختم کردی جائے۔
اس کے علاوہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے عہدے ختم کرکے انھیں گرو کا ٹائیٹل دیا جائے اور ان عہدوں پر تعیناتی سینیاریٹی کے بجائے کارگردگی دیکھ کر کی جائے۔ کارکردگی میں سو میں سے پچانویں نمبر تابعداری اور خوشامد کے ہوں اور پانچ نمبر صفائی کے ہوں، یعنی ہاتھ کی صفائی کے۔ اس کسوٹی پر جو نتائج مرتب ہوں، انھیں success story کے طور پر آیندہ بھرتی ہونے والے ملازمین کو پڑھائے اور دکھائے جائیں۔
حکومت کے مخالفین کے ساتھ بات چیت میں جو گرو نرمی کا مظاہرہ کرے یا ان کے گھروں میں گھستے وقت جو دروازے توڑنے اور خواتین کی توہین کرنے سے گریز کرے، اس کی پروموشن روک دی جائے اور کسی کھڈے لائن جگہ پر بھیج دیا جائے۔
توقع ہے کہ ان اصلاحات سے حکومت کی گرفت مضبوط ہوگی۔ جس سے اس کی کارکردگی میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔ ان اصلاحات پر کامیابی سے عملدرآمد کے بعد مختلف اطراف سے آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں گی کہ اب آئین کا ٹنٹنا بھی ختم ہی کردیا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کچھ شرپسند اسی آئین کے آرٹیکل چھ کا بار بار نام لے کر کچھ معزز شخصیات اور ان کی فیمیلز کو ڈراتی اور ان کی انتہائی پرسکون زندگی میں خلل ڈالتی رہتی ہیں۔
ایسی آوازوں میں کچھ اپنے الاونس دار بندوں کی آوازیں ملا کر اسے پوری قوم کا مطالبہ قرار دیا جائے اور پھر یہ قومی مطالبہ مانتے ہوئے آئین وغیرہ سے بھی نجات ہی حاصل کرلی جائے، تاکہ نہ رہے گا آئین اور نہ لگے گا آرٹیکل چھ، اس کے لیے آئین کے بغیر ترقی کرنے والے ملکوں کی مثالیں بھی دی جائیں گی۔ ان حالات کے نتیجے میں ملک کو استحکام نصیب ہوگا اور ایسی حکومت وجود میں آئے گی جو اتنی مضبوط ہوگی کہ اس کے جانے وغیرہ کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہوگا۔
اقتصادی ماہرین، معاشی ترقی کے لیے دو بنیادی ضروریات کا ذکر کرتے رہتے ہیں، استحکام اور تسلسل۔ ان اصلاحات سے یہ دونوں ضروریات بھی پوری ہوجائیں گی۔ ایسی حکومت کی کامیابی کے لیے چونکہ گرو بڑا اہم کردار ادا کریں گے لہذا انھیں خصوصی ایوارڈ دیے جائیں اور اس کے لیے سال میں ایک بار نہیں، بلکہ تین چار بار تقریبات منعقد ہوا کریں۔ انھیں عطا کیے جانے والے اعزازات کے ٹائٹل بھی ان کی خدمات کے مطابق رکھے جائیں مثلا تمغہ وفاداری۔
پرانی حکومتیں نظامِ فلکی کے دو سیاروں یعنی ستارہ وہلال کو استعمال کرتی ہیں مگر یہ سیارے تو بلندی کی علامت ہیں، جب کہ ووٹ اور حلف سے بے نیاز حکومت اپنے اعزازات کے لیے پستی کی علامتیں تلاش کرے اور تابعداری اور وفاداری کو ایوارڈز کو گہرے غاروں کے ساتھ موسوم کرے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس