جس صوبہ میں دیہی سندھ پر ڈاکوؤں اور شہری سندھ پر اسٹریٹ کرمنلز کا راج ہو وہاں کا وزیر داخلہ اس طرح کا بیان دے تو کوئی تعجب نہیں کہ آخر کیوں یہ مجرم آزاد اور عوام خوف زدہ ہیں۔؟ جہاں پچھلے 15سال سے ایک ہی جماعت پی پی پی کی حکومت ہے اور ایک ہی وزیر اعلیٰ ہیں وہاں تو سیف سٹی پروجیکٹ جیسی اسکیمیں بہت پہلے آ جانی چاہیے تھیں ۔ اربوں روپے امن و امان پر خرچ کرنے کے بعد اگر یہ حالات ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
آئیں آپ کو آج سے میں ’’لہولہان کراچی‘‘ کی اصل کہانی سناتا ہوں اور یہ بھی کہ یہ مسئلہ کیوں نہیں حل ہو پا رہا جب کہ اس شہر میں ایک نہیں، دو نہیں چار آپریشن ہوئے فوجی آپریشن، پولیس آپریشن اور سب کا مشترکہ آپریشن 1992 سے 2013تک۔ 1989سے آج تک ہم میرٹ پر ایک ایسی پولیس فورس نہیں تشکیل دے پائےکہ جس کے بعد یہاں رینجرز کی ضرورت نہ رہے، جنہیں سالانہ اربوں روپے دئے جاتے ہیں۔ اس سب کو جاننے کیلئے ہمیں 2011میں شروع ہونے والے پانچ رکنی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دیکھنا پڑے گا جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں شروع ہوا اور اس کا 156 صفحات پر مشتمل فیصلہ بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کیلئےکافی ہے۔ 2013کےآپریشن کا پس منظر بھی یہی ہے۔ چوہدری صاحب نے اسی فیصلے میں شائد پہلی بار کسی مقدمہ میں فیصلے پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی طے کیا یعنی ہر ماہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، چیف سیکرٹری ، آئی جی سندھ اور ایجنسیوں کے سربراہان کراچی بدامنی کیس پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔ خود چیف جسٹس پاکستان بھی ہر ماہ عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔
اسی فیصلے میں سندھ حکومت کی جانب سےآئی جی سندھ نے یہ بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا کہ سندھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ (1)کراچی میں امن و امان قائم کر سکتے ہیں اور (2) کچے کے علاقہ کو ڈاکوؤں سے صاف کر سکتے ہیں ۔ کچے کے علاقوں پر آج بھی ڈاکو راج ہے شہری اغوا ہوتے ہیں تاوان دیتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔ آج بھی صحافی جان محمد مہر کے گھر والے قاتلوں کی گرفتاری کے منتظر ہیں۔
کراچی بدامنی کیس جو از خود نوٹس تھا پر کتنا عمل ہوا کیونکہ پچھلے تین ماہ میں 49نوجوان اسٹریٹ کرائم میں مارے گئے اور آج بھی کئی اغوا ہونے والے کچے میں قید ہیں۔ فیصلے کے ایک صفحہ کو میں نے پڑھا ہے۔ اس میں ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ انسان کی طبیعت خراب ہو جائے۔ بوری بند لاشیں وہ بھی کئی سر تن سے جدا۔ وزیر داخلہ نے درست کہا اب یہ نہیں ملتیں کیونکہ اب تو سڑکوں پر کھلے عام مار دیتے ہیں چاہے موبائل دے دو، زیورات دے دو یا نہیں۔ اس فیصلےمیں لینڈ مافیا کو بھی امن و امان خراب کرنےکا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی شہر ِقاتل میں زمینوں کے جھگڑے میں ججز تک مارے گئے ہیں ۔ کم از کم جسٹس نظام الدین کے قتل کا تعلق اربوں روپے کی ایک زمین سے تھا۔ جس کو وہ سن رہے تھے اور بھی کئی ایسے واقعات ہیں ۔ اس فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر سال سندھ حکومت رینجرز کو چار سو ملین دیتی ہے اس وقت کے ڈی جی رینجرز کے مطابق ’’کراچی کے حالات وزیرستان سے زیادہ خراب ہیں‘‘۔ اس میں سیاسی مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگز کا بھی ذکر ہے اور کوئی 25 لاکھ غیر ملکیوں کا۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ بقول آئی جی سندھ ’’10 لاکھ سے زائد خطرناک اسلحہ کے لائسنس کا اجرا کیا گیا مگر آج تک ان کی Nadra سے تصدیق نہیں ہو سکی (شائد اس کے بعد ہوئی ہو مگر تفصیل کا علم نہیں ) حیران کن امر یہ ہےکہ جس دن یہ کیس اختتام پذیر ہوا یعنی 9ستمبر 2011 کو اسی دن مشہور زمانہ چوہدری اسلم SSP کے ڈیفنس والے گھر پرخود کش حملے میں 6 پولیس والے شہید ہوئے بعد میں ایک اور واقعہ میں چوہدری اسلم بھی مارا گیا۔
اس سارے پس منظر میں 2013میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گورنر ہاؤس کراچی میں ایک اہم اجلاس کیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف، صدر آصف علیٰ زرداری ، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی موجودگی میں گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا اور پہلی بار ایک اعلیٰ سطح کی اپیکس کمیٹی تشکیل پائی جس کے سربراہ وزیر اعظم اور صوبائی کپتان قائم علی شاہ یا وزیر اعلیٰ تھے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ جنرل راحیل نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے یہ گارنٹی مانگی کہ اگر کسی کی سیاسی وابستگی ثابت ہوئی اور کارروائی ہوئی تو آپ لوگوں کی طرف سےاعتراض تو نہیں آئیگا آپریشن کیخلاف، سب نے یقین دلایا کہ آپریشن بلا تفریق ہو۔
جہاں تک مجھے یاد ہے آپریشن کے تین بنیادی اہداف مقرر ہوئے۔ (1) کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن جن میں طالبان، القاعدہ، داعش جیسی تنظیموں کیساتھ فرقہ ورانہ تنظیمیں ۔ (2) سیاسی جماعتوں کے مبینہ مسلح ونگز کا خاتمہ۔ (3) اسٹریٹ کرائمز کو روکنےکیلئے مربوط پالیسی۔ اس سب کیلئےعدلیہ سے ملزمان کی ضمانت کی بھی بات ہوئی۔ اگر کراچی بدامنی کیس کی عمل درآمد کمیٹی جو کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں آج تک قائم ہوتی تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا۔ آج اس بات کو 12سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
2013 ءکا آپریشن شروع ہوا تو وہ کچھ مختلف نظر آیا کالعدم تنظیموں کے خلاف منظم کارروائیوں کے علاوہ لیاری گینگ وار، ایم کیو ایم کے مسلح ونگ کے علاوہ اے این پی سے تعلق رکھنے والے بھی پکڑے یا مارے گئے۔ تاہم 90عزیز آباد خاص ٹارگٹ رہا۔مگر بات وہیں تک نہ رکی اور بلاول ہاؤس کا نام بھی رینجرز کی پریس ریلیز اور اداروں کے اجلاسوں میں آنے لگا۔ جس کی مذمت پی پی پی نے کی اور اجلاس میں معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
آپریشن نے اس وقت خطرناک موڑ لیا جب ایک خفیہ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت میں سندھ کے بعض محکمے بھی ملوث ہیں۔ اسکے بعد صورتحال کشیدہ ہوئی خاص طور پر فشریزڈپارٹمنٹ پر چھاپہ مارا گیا اور بعد میں اس کے چیئرمیں نثار مورائی کو گرفتار کیا گیا۔ بلڈنگ کنٹرول کے منظور خاکہ پر بھی ہاتھ ڈالا گیا اور پھر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے تعلقات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آصف زرداری کایہ بیان ’’آج نواز شریف نے میری پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے‘‘ اور ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیانات اسی آپریشن کے پس منظر میں تھے۔
آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ کچے کے علاقہ کے ڈاکو اور پکے کے علاقہ کے قاتل آزاد ہیں کوئی بھی بنیادی ریفارمز نہیں کی گئیں۔ لکھ بہت کچھ سکتا ہوں کیونکہ ان گناہ گار آنکھوں نے 40سال کی صحافت میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ پھر کبھی…..
بشکریہ روزنامہ جنگ