کوئی بھی سچ کے ساتھ کھڑانہیں ہوتا ،سب تنظیمیں ٹریڈیونینز بن چکی ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کہ کوئی بھی سچ کے ساتھ کھڑانہیں ہوتا سب تنظیمیں ٹریڈیونینز بن چکی ہیں۔ دنیا میں ہر خبر کی تصدیق کی جاتی ہے، میڈیا کی آزادی میرے دل کے قریب ہے۔ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتنا ہی سوشل میڈیا پر بِکے گا، جھوٹے تبصرے کرکے ڈالرز کمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟ کیا پیسے کمانے کے لیے ایسی خبریں خود سے تیار کی جاتی ہیں، اگر کوئی صحافی اپنی خبر میں جھوٹا ثابت ہو تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے؟مطیع اللہ جان کااوپن اینڈ شٹ کیس ہے، اس کی ریکارڈنگ موجود ہے، ویڈیوریکارڈنگ موجود ہے، ہوسکتا ہے کہ پولیس مسئلہ کو حل نہیں کرنا چاہتی۔ ہم مفروضوں پر کیس نہیں چلاسکتے۔ اگر میں کسی کو اپنے سرکاری کاموں میں مداخلت کی اجازت دیتا ہوں تویہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں جھوٹی خبر چلادی، ہمیں نمبر آف ٹویٹس اور ہٹس چاہئیں ،کوئی خوداحتسابی نہیں، جو سب سے زیادہ جھوٹ بولے گاوہ سب سے زیادہ ویوز حاصل کرے گا۔ صحافی سمجھتے ہیں کہ ہم آسمان پر ہیں، ہم غلطی کیسے مانیں گے،کیا آج تک کسی صحافی نے غلطی تسلیم کی ہے؟کہا گیا کہ میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، لوگ کیا سوچیں گے، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟جبکہ عدالت نے سید ابن حسین اوردیگر شریک چھ درخواستوں گزاروں کودرخواست واپس لینے کی استدعا پر آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کرنے اور جاری نوٹسز پر سپریم کورٹ کی جانب سے2021میں لئے گئے ازخود نوٹس اورپریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ اوردیگر صحافتی تنظیموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ صحافیوں کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین احمد ، شاہ خاورایڈووکیٹ اور ریاست پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان پیش ہوئے۔

دوران سماعت سینئر صحافی حامد میر، ابصار عالم اورمطیع اللہ جان بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا کیس سننے والے بینچ کے ایک رکن عرفان سعادت خان کراچی میں کیسز کی سماعت کررہے ہیں،بینچ کے ایک رکن نے کیس نہیں سنا، کوئی عجلت تونہیں ، ایک جج نے ہم میں سے کیس نہیں سنا ہم کیا کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتارنی جنرل اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق آئی جی پولیس سید ابن حسین اور دیگر چھ درخواست گزاروں نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وکیل حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ بالکل یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کردی۔

بیرسٹر صلاح الدین احمدنے عدالت کو بتایا کہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا حیدر وحید کہاں ہیں؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میں کسی کے ساتھ نہیں کھڑا، سید ابن حسین اوردیگر کی جانب سے دائر درخواست میں میڈیا پر مزید سختی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ  درخواست گزار کا مقصد کیا ہے، ان کا مقصد صحافت پر مزید پابندیاں لگانا ہے، میڈیا میں سلیکٹو رپورٹنگ ہورہی ہے، کیا یہ درخواست صلاح الدین کی درخواست کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ہے، لاہور، اسلام آباد اورچکوال کے لوگ کیسے اکٹھے ہو گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حیدر وحید کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے، کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی؟ ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے؟ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی کیا ان کامقصد پورا ہو گیا؟ درخواستگزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا۔ کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا؟ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ایڈووکیٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ عدالت آئے،کیا ہمیں استعمال کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ڈیو پراسیس کی خلاف ورزی ہے، کیا اٹارنی جنرل اس حوالہ سے عدالت کی معاونت کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں میں سے دواسلام آباد کے رہائشی ہیں ان میں سے کوئی عدالت میں موجود ہے توسامنے آئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس درخواست کو اچھا یا برانہیں کہہ رہے، درخواست میں 11قوانین کاذکر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا  کہ وفاقی حکومت نہیں بلکہ سپریم کورٹ اس معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ مینی پولیشن ہوتی ہے، کیا یہ درخواست عدلیہ کی آزادی کو تقویت دے رہی ہے یا اس کو نیچادکھا رہی ہے، کیا ہم درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میراخیا ل ہے کہ آج کل لوگوں کو دلچسپی نہیں، آج کل ہر چیزآلودہ ہو گئی ،درخواست گزارکو سامنے آنے دیں۔ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ درخواست واپس لینے کے حوالے سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزادنے چوہدری اختر علی کو نوٹس دیا ہے، ایک ایڈووکیٹ آن ریکارڈ دوسرے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو درخواست واپس لینے کی ہدایات دے رہا ہے، کیا  ایک اے اوآردوسرے اے اوآر کو نوٹس دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ نہ وکیل اور نہ ہی اے اوآردوران سماعت موجود تھے، نہ ان کی جانب سے کوئی اطلاع موصول ہوئی،6میں سے کوئی بھی درخواست گزارموجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے کچھ یقین دہانیاں کروائی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی ان لوگوں سے آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ تو نہیں ہو گئی؟، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ ہم ایک صحافتی باڈی ہیں، ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہا گیا ہو آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا، کیا خبر چلنی ہے اور کیا خبر نہیں چلنی اورکون سی خبر کتنے منٹ چلنی ہے، یہ سیٹلمنٹ بھی توہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت دائر درخواست واپس نہیں لی جاسکتی، مناسب ہو گا کہ تمام چھ درخواست گزاروں کو نوٹس جار ی کرکے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیں۔ عدالت نے سید ابن حسین سمیت چھ درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرطلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی نوٹس کی کاپی نوٹس کے ساتھ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد اوردیگر کو بھجوائی جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا یہ 6 درخواستگزار غائب ہو گئے، اسی لئے ہم نے کہا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی اور ارجنٹ معاملہ ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے مطیع اللہ جان کیس کا حوالہ دیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس کا ہے، آپ کے پاس اس واقعہ کی ویڈیو ہے، اس کی ریکارڈنگ موجود ہے، ہوسکتا ہے پولیس اس مسئلہ کو حل نہ کرنا چاہتی ہو، ہم نے بلوچستان میں ویڈیو کے ذریعے سے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی سے کروالیا، اخبار میں اشتہار دیا، انعام دیا اوربندہ آگیا وہ بتانانہیں چاہتا تھا، میں اس کو جانتا ہوں، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے، اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صحافی برادری کا کیس ہے، ہم تحقیقات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، تاہم حکومت سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرے، اگر صلاح الدین احمد کو اٹارنی جنرل آفس سے رابط میں کوئی دشواری ہے تو بتائیں۔ اس پر صلاح الدین احمد نے کہا کہ انہیں کوئی دشواری نہیں۔ اس دوران صلاح الدین احمد نے کہا کہ وہ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی نمائندگی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر آصف بشیر چوہدری کے وکیل شاہ خاورایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں پارٹی بنے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مفروضوں پر کیس نہیں چلاسکتے۔ چیف جسٹس کہا کہ پی ایف یو جے کہاں بیس کرتی ہے، اگر کوئی رپورٹ بنائی ہے تووہ ہمارے سامنے بھی رکھیں، صلاح الدین کو بھی کاپی دیں اور اٹارنی جنرل کو بھی کاپی دیں۔ دوران سماعت حامد میر نے مطیع اللہ جان کے واقعہ کے حوالے سے آرآئی یوجے کی جانب سے کی گئی انکوائری کی رپورٹ بنچ کے سامنے پیش کی۔ عدالت نے آصف بشیر چوہدری کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کرلی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ صحافی شاہد میتلا کا بیان پولیس نے ریکارڈ کیا ہے، شاہد میتلا نے بتایا ہے کہ انہیں ابصار عالم اور اسدعلی طورپر حملوں میں ملوث افراد کا علم نہیں۔ صلاح الدین احمد نے کہا کہ عدالت براہ راست جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کو بلا کر پوچھ لے۔ شاہد میتلا کے جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے انٹرویو کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ جرنلزم نہیں، صحافی ریکارڈ رکھتے ہیں،گھر میں کیفے میں کہاں انٹرویوکیا، اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں جھوٹی خبر چلادی، ہمیں نمبر آف ٹویٹس اور ہٹس چاہئیں ،کوئی خوداحتسابی نہیں، جو سب سے  زیادہ جھوٹ بولے گاوہ سب سے زیادہ ویوز حاصل کرے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ نے تردید نہیں کی، یا میں بیٹھ کرتردید کروں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحافی سمجھتے ہیں کہ ہم آسمان پر ہیں، ہم غلطی کیسے مانیں گے،کیا آج تک کسی صحافی نے غلطی تسلیم کی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا گیا کہ میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، لوگ کیا سوچیں گے، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کانوتس دیں، چارج فریم کریں اور پھر جیل بھیجیں، اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنے سرکاری کاموں میں مداخلت کی اجازت دیتا ہوں تویہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آن گائیڈڈ میزائل ہے جو ہر کسی کو مثاثر کرتا ہے، زیادہ سے زیادہ ٹویٹ حاصل کرو اور یوٹیوب کے ویوز حاصل کرو۔ چیف جسٹس کا صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کوئی صحافی جھوٹ بول رہا ہے توکیا پھر کیا ایسوسی ایشن اس کی ممبرشپ منسوخ کرے گی، کوئی حل ہے کہ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جرمانہ ہے اوردوسری خوداپنے آپ میں بہتری لانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی سچ کے ساتھ کھڑانہیں ہوتا سب تنظیمیں ٹریڈیونینز بن چکی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم نوٹس دیں گے توکہیں گے کہ سپریم کورٹ کا حملہ ہو گیا ، ہرادارہ اپنے معاملات کو پہلے دیکھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ ہرجانے کی رقم نہیں لینا چاہتے بلکہ اپنی ساکھ کا تحفظ چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس  نے کہا کہ دنیا میں ہر خبر کی تصدیق کی جاتی ہے، میڈیا کی آزادی میرے دل کے قریب ہے۔ عدالت نے شاہ خاورایڈووکیٹ کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ۔عدالت نے کہا کہ سابقہ بینچ کی دوبارہ دستیابی پر کیس دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔ ZS