2024کے رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے۔ ماہِ صیام کے تینوں عشروں کی اپنی اپنی بے پناہ فضیلتیں اور عظمتیں ہیں۔تیسرے عشرے کو مگر تمام عشروں پر فوقیت حاصل ہے۔ ہمیں کئی ایسی احادیث ِ مبارکہ ملتی ہیں جو اِس عشرے کی غیر معمولی اہمیت کو واضح اور اجاگر کرتی ہیں۔
اِسی عشرے میں ، اعتکاف کی وجہ سے، مساجد کی رونقیں مزید ایمان افروز ہو جاتی ہیں۔تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ کہلاتا ہے۔ خوش بختوں اور اعلی نصیب والوں ہی کو مگر اِس عشرے کی جملہ نعمتیں سمیٹنے اور ان سے مستفید ہونے کے مواقع ملتے ہیں۔ ماہِ صیام کا یہ تیسرا عشرہ ہی ہے جس میں ایک ایسی بابرکت شب بھی آتی ہے جسے اللہ نے ایک ہزار مہینوں سے زیادہ افضل قرار دیا ہے: لیلتہ القدر کے مبارک و مسعود لمحات! سبحان اللہ ! پاکستان بھی اِسی بابرکت عشرے کے دوران معرضِ عمل میں آیا تھا ۔
پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بننے کا منفرد و ممتاز اعزاز رکھنے والے جناب میاں محمد نواز شریف کا بھی گزشتہ کئی برسوں سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ مبارک حرمین الشریفین کی پر نور فضاؤں میں عبادتوں میں گزارتے ہیں۔ ان کا یہ کردار قابلِ ستائش بھی ہے اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت میں قابلِ تعریف بھی۔ ہر مسلمان جسے اللہ تعالی نے مطلوبہ وسائل کی نعمتوں سے سرفراز کررکھا ہے، اس کے لیے حرمین الشریفین حاضر ہونا تو ویسے ہی فرض بن جاتا ہے۔
اللہ کریم نے نواز شریف صاحب کو متنوع نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ پھر وہ کیوں نہ بطورِ شکر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سر کے بل حاضری دیں؟ وہ حاضری کا فریضہ تنہا انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے خاندان کے قریبی افراد کو بھی اپنے قافلے میں شامل کر لیتے ہیں۔ حرمین الشریفین کی مقدس ترین فضاوں میں خاندان کے ساتھ اجتماعی عبادات کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے!
ابھی رمضان شریف کا تیسرا عشرہ مبارک طلوع بھی نہیں ہوا تھا کہ نون لیگی قائد کے مخالفین و معاندین کی جانب سے یہ شرلیاں چھوڑی جانے لگی تھیں کہ نواز شریف چونکہ 8فروری کے انتخابی نتائج سے بے حد مایوس ہیں، اس لیے اِس بار وہ رمضان کے تیسرے عشرے میں حرمین شریفین جائیں گے اور وہیں سے لندن پدھار جائیں گے۔ اور یہ کہ اِس بار وہ لندن جائیں گے تو ان کی جلد واپسی بھی ممکن نہیں ہے کہ مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہی ہے ۔
وہ اپنا سیاسی خسارہ بری طرح محسوس کررہے ہیں۔ ایسی خبروں اور اطلاعات کو باقاعدہ ایک مہم کی شکل میں آگے بڑھایا گیا۔سچی بات یہ ہے کہ راقم الحروف بھی ان افراد میں شامل تھا جسے یقین تھا کہ مایوس وخسارہ زدہ نواز شریف اِس بار حرمین شریفین جائیں گے اور وہاں سے لندن جا کر کئی مہینے سکون میں گزاریں گے۔ مگر پچھلے چند ہفتوں سے ہم سب نے دیکھا ہے کہ قائدِ نون لیگ جناب میاں محمد نواز شریف سیاست میں پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان کے چہرے کی بشاشت بھی لوٹ آئی ہے۔ ان کی بدن بولی بھی بدلی بدلی سی محسوس ہو رہی ہے ۔ اور اِسی تازہ ترین پس منظر میں یہ مصدقہ خبر سامنے آئی ہے کہ نواز شریف صاحب اِس بار حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت بھی حاصل نہیں کررہے بلکہ بغرضِ میڈیکل چیک اپ لندن بھی نہیں جا رہے ۔
لندن نہ جانے کا جناب نواز شریف کا فیصلہ مستحسن ہے۔ ان کے اِس اقدام سے یقینا محترمہ مریم نواز کی حکومت اور نون لیگ کو تقویت ملے گی کہ نواز شریف کے کار آمد اور قیمتی مشورے میڈم سی ایم کے لیے نہایت مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں نواز شریف صاحب کا موجود رہنا محترمہ مریم نواز شریف کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگرچہ مبینہ طور پر بعض اطراف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ نواز شریف صاحب پسِ پردہ رہ کر اپنے بھائی اور اپنی بیٹی کو گائیڈ کریں ۔ نواز شریف صاحب نے جس طرح دھڑلے سے، اپنی صاحبزادی کے ساتھ بیٹھ کر ، ایک اہم سرکاری میٹنگ کی صدارت کی ہے، اِس منظر بارے بعض مخالفین نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے ۔
وہ ردِ عمل میں نواز شریف کے اِس عمل کو عدالت میں بھی لے گئے ہیں۔ لیکن اِس کا فائدہ؟ نواز شریف صاحب نے جس عزم کے ساتھ میڈم سی ایم پنجاب کے ساتھ فیصل آباد کا دورہ کیا ہے ، دو غریب متاثرین گھرانوں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا ہے اور جس انداز میں فیصل آباد کے نون لیگی ارکانِ اسمبلی اور سیاستدانوں کو مشورے دیے ہیں، اِس اقدام سے یقینا یہی نظر آرہا ہے کہ نواز شریف نہ تو مایوس ہیں اور نہ ہی خسارے کے احساس سے جھکے جارہے ہیں۔
گزشتہ روز ایک معروف اینکر پرسن اور ایک انگریزی جریدے کے ایڈیٹر نے بھی ( جب کہ وہ جاتی امرا میں نواز شریف کے ہاں افطاری پر مدعو تھے) اپنے تازہ اور نجی مشاہدے کی بنیاد پر گواہی دی ہے کہ نوازشریف مایوس ہیں نہ لندن جا رہے ہیں۔میاں صاحب تو بالکل ریلیکس ہیں۔
نواز شریف صاحب نے لاہور کی ایک غریب ترین بچی ،عنایہ، کے دل کا پیچیدہ اورمہنگا آپریشن اپنی ذاتی جیب سے کروا کر دعائیں اور محبتیں سمیٹی ہیں۔ کاش دوسرے دولتمند سیاستدان بھی ایسی شاندار مثالیں قائم کر سکیں۔ نواز شریف کے چاہنے والے تمام نون لیگیوں کی بھی یہی خواہش اور تمنا ہے کہ نواز شریف صاحب ابھی لندن نہ ہی جائیں تو بہتر ہے۔
نواز شریف نون لیگ کے صدر ہیں نہ وزیر اعلی اور نہ ہی وزیر اعظم لیکن اِس کے باوجود نون لیگی اکثریتی کارکنان اپنے قائد کو اپنے درمیان بیٹھے دیکھنا چاہتے ہیں۔نواز شریف کے لیے یہ امر ہی باعثِ اطمینان ہے کہ ان کی صاحبزادی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیر اعلی منتخب ہو چکی ہیں۔ ان کا برادرِ خورد دوسری بار ملک کا وزیر اعظم بن چکا ہے۔
ان کا سمدھی وزیر خارجہ کے اہم عہدے پر متمکن ہو چکا ہے اور مشترکہ مفادات کونسل میں بھی غیر معمولی طور پر جگہ سنبھال چکا ہے ۔ ان کا ایک بھتیجا رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکا ہے ۔ ان کی پارٹی مرکزی حکومت سنبھال چکی ہے ۔ ان کے دونوں صاحبزادگان کے سات برس پرانے سنگین مقدمات عدالت نے ختم کر دیے ہیں۔ یہ حقیقی واقعات بتا رہے ہیں کہ نواز شریف مایوس اور بددل ہو کر سیاست و اقتدار سے جدا نہیں ہوئے ہیں۔ درست ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے کی آرزو پوری نہیں کر سکے ہیں ، لیکن وہ چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہونے کی آرزو سے دستکش تو نہیں ہوئے ۔
اتاولا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ابھی مرکز اور صوبوں کی حکومتیں بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں گزرے ہیں۔ یار لوگ مگر ابھی سے لٹھ لے کر پنجاب اور مرکز کی حکومتوں پر چڑھ دوڑنے کی ناکام کوششیں کرنے لگے ہیں ۔ یہ غیر دانشمندانہ اور غیر حکیمانہ خواہشیں اور کوششیں ہیں۔
مطلق سعیِ لاحاصل! میڈیا میں بھی بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے ایسی ناعاقبت اندیشانہ شرلیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔ کیا ہمارے میڈیا کو بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے وہ نامسعود ایام یاد ہیں جب طاقتوروں کی طرف سے مثبت رپورٹنگ کرنے کے احکامات ملا کرتے تھے ؟ ایسے جبریہ احکامات ملنے سے پہلے ہی ہمیں سچ اور صبر کا دامن تھام لینا چاہیے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس