غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور غزوہِ   بدر کا پیغام  …. تحریر : لیاقت بلوچ۔قائم مقام  امیر جماعتِ اسلامی پاکستان،سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان

” اے ایمان والو!  صبر سے کام لو،  باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو،  اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے۔” (آلِ عمران: 200)۔
حق اور باطل کی کشمکش میں حق کو ہی غلبہ اور باطل ناکام، ذلیل و رُسوا ہوکر رہتا ہے۔ حق و باطل کی جنگ میں ہمیشہ کامیابی مومنین کا ہی مقدر ہوا کرتی ہے۔  وانتم الاعلون ان کنتم مومنین (آلِ عمران: 139)۔ باطل کے مقابلہ میں اہلِ ایمان ہمیشہ  ثابت قدم  رہتے ہیں۔  إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَ فِى سَبِيلِهِۦ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَٰنٌ مَّرْصُوصٌ(الصف: 04)۔
سعودی عرب میں مدینہ منورہ سے تقریباً 130 کلومیٹر  (یا 80 میل) کے فاصلے پر  ایک بیضوی شکل کا ساڑھے چار میل چوڑا وسیع اور پہاڑوں سے گِھرا  میدان ہے، جسے  میدانِ بدر کہا  جاتا ہے ۔ اس میدان کی تاریخی اور معاشی حیثیت پہلے سے موجود تھی، اور وہ یہ کہ یمن سے شام تک کی تجارتی شاہراہ اِسی میدان سے ہوکر گزرتی تھی جس پر تجارتی قافلے سفر کیا کرتے تھے۔جبکہ مکہ اور مدینہ جانے کے راستے بھی اسی مقام پر آکر ملتے تھے۔ بحیرہ احمر (Red Sea)  کا ساحل یہاں سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہی  وہ جگہ ہے جہاں آج سے  تقریباً چودہ سو سال قبل دُنیا  بھر کے  مستقبل  کا تعین کرنے والا وہ فیصلہ کُن معرکہ حق و باطل پیش آیا، جو تاریخِ اسلام میں  جنگِ بدر کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں بھی جنگ بدر کو یوم الفرقان، یعنی فیصلے کے دن کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ غزوہ بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں  مسلمانوں کو اِس نعمت ِکبریٰ کی یاد دہانی بایں الفاظ فرمائی:
”اور بے شک اللہ (تعالیٰ) نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔“ (آل عمران: 123)۔
میدانِ بدر میں 313  فرزندانِ اسلام  کو  مشرکین مکہ کے  ایک ہزار  نامی گرامی جنگجوؤں، پائے کے  قریشی سرداروں  پر مشتمل  بڑے  لشکر کا سامنا تھا۔  بظاہر بے سر و سامانی کے عالم میں موجود  313 صحابہ کرامؓ کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اُونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں ۔ایک ایک اُونٹ پر تین تین مسلمان سوار تھے۔ تاجدارِ دوجہاں، خاتم الانبیاء والرمرسلین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ ،  حضرت سیّدنا علی المرتضٰیؓ اورحضرت مرثد غنویؓ ایک اُونٹ پر جبکہ  حضرت سیّدنا ابو بکرصدیقؓ‘ حضرت عمروؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ دوسرے پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس   تاریخ ساز معرکہ حق و باطل کی منظر کشی ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے کچھ اِن الفاظ میں کی ہے:۔
تھے  اُن  کے پاس  دو گھوڑے چھ زرہیں آٹھ شمشیریں
پلٹنے   آئے   تھے   یہ   لوگ   دُنیا   بھر   کی   تقدیریں
نہ   تیغ   و   تیر    پہ   تکیہ   نہ   خنجر   پر   نہ   بھالے   پر
بھروسہ تھا  تو  اِک سادی  سی  کالی کملی والےﷺ  پر
اسلامی لشکر کے مقابلے میں   کفارِ  مکہ کا لشکر  گھوڑوں، اونٹوں اور دیگر سواریوں سمیت ہر قسم کے سامانِ حرب سے لیس تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر بارگاہِ خداوندی میں سربسجود ہوکر انتہائی رِقت آمیز دُعا فرمائی۔ اللہ کو اپنے محبوب علیہ السلام کی یہ ادا   اِس قدر پسند آئی  کہ فرشتوں کے ذریعے مجاہدینِ  بدر کی مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا، حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی دائرے کھینچ کر صحابہ کرامؓ کو خوشخبری سنائی  کہ فلاں فلاں کافر اِن اِن دائروں میں مجاہدینِ بدر کے ہاتھوں جہنم واصل ہوگا۔ اور پھر عالمِ بینا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں کفار مکہ  کو ذِلت آمیز شکست سے  دوچار کردیا۔  عتبہ، ابو جہل، ابوا لبختری‘ زمعہ بن الاسود ، عاص بن ہشام ، امیہ بن خلف ، عتبہ بن الحجاج جیسے نامی گرامی  قریشی  سردار وں سمیت  قریباً ستر کفار مجاہدینِ بدر کے ہاتھوں  واصلِ جہنم اور اِتنی ہی تعداد میں  گرفتار ہوئے۔  جبکہ کفار کے مقابلہ میں صرف 14 صحابہ کرامؓ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ مشرکینِ مکہ کے بڑے لشکر کے  مقابلے میں  بظاہر بے سرو سامان مجاہدینِ بدر کے جانثاروں کا یہ قافلہ  ایک نئی تاریخ رقم کرچکا تھا۔ اس عظیم الشان کامیابی کے بعد   آپﷺ نے بارگاہِ ایزدی میں بطور شکر  دستِ مبارک اٹھائے اور  تین مرتبہ فرمایا: ’’واقعی اُس اللہ کی قسم،جس کے سِوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’اللہ اکبر، تمام حمد اللہ کے لیے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دِکھایا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔‘‘
اس عظیم الشان معرکہ حق و باطل کی نقشہ گری کرتے ہوئے  شاعرِ مشرق  علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا کہ
فضائے  بدر  پیدا  کر  فرشتے  تیری  نصرت  کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
غزوہ بدر کی اہمیت کئی حوالوں سے تھی، یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم مؤرخیں کے مطابق بھی  اس جنگ کا شمار دنیا کی چند فیصلہ کُن جنگوں میں کیا جاتا ہے۔ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی لڑائی نہیں تھی لیکن نتائج کے اعتبار  سے اس کی اہمیت سیاسی بھی تھی اور مذہبی بھی۔ اس جنگ نے نہ صرف مشرکینِ مکہ اور قریش کے نامی گرامی سرداروں کا غرور خاک میں ملا  دیا بلکہ عرب اور شام کے درمیان اس  اہم تجارتی  شاہرا کو بھی محفوظ بنادیا۔ جنگِ بدر میں کفارِ مکہ کی عبرت ناک شکست نے دور دراز قبائل میں عرصہ دراز سے قائم مشرکینِ مکہ کی  دھاک بھی ختم کردی۔  اس طرح جزیرۃ العرب کے دیگر قبائل پہلی دفعہ مسلمانوں کی قوت سے مرعوب ہوئے اور انہیں اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی حقانیت اور سچائی پر یقین آگیا۔
فلسطین –  جوکہ بیشتر جلیل القدر  انبیاء علیہم السلام کی جائے پیدائش و مسکن  ہے، ہمارے پیارے آقا خاتم الانبیاء  والمرسلین حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے اِسی ارضِ فلسطین پر مسجدِ اقصٰی میں تمام انبیائے کرام کی امات فرمائی اور معراج کا سفر فرمایا۔  اِسی ارضِ فلسطین میں متعدد   جلیل القدر انبیائے کرامؓ  آج بھی مدفون ہیں۔  اِسی  ارضِ مقدس پر  ایک صدی قبل برطانوی و عالمی  سامراج کی سرپرستی میں سازشی منصوبہ کے تحت  دُنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کرکے بسایا   گیا۔  یہودیوں کو اس ارضِ مقدس فلسطین میں جائے پناہ دینے والے ، اس کےاصل  مالک فلسطینی مسلمانوں  کو  ہی امریکہ، برطانیہ اور  عالمی استعمار کی سرپرستی میں  یہودی آبادکاروں نے بے دخل اور بے گھر کرنا شروع کردیا، اور  فلسطینیوں کے قتلِ عام کا بازار گرم کردیا، جس میں  اب تک لاکھوں فلسطینی اپنی جان، مال، عزت و آبرو سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور یہ سلسلہ  تاحال   جاری ہے۔  مسجدِ اقصٰی کے تقدس کو پامال کرکے جلاؤ گھیراؤ کرنا، مظلوم اور معصوم فلسطینیوں کو قتل کرنا ، انہیں قید و بند میں ڈالنا قابض صیہونی افواج اور یہودی آبادکاروں  کا  وطیرہ بن چکا ہے۔
7 اکتوبر 2023ء کے “طوفان الاقصٰی” آپریشن کے بعد  اہلِ غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا، جسے تقریباً چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل نے ٹینکوں، بلڈوزروں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے اہلِ غزہ کا محاصرہ کرکے یہاں کے  معصوم اور  نہتے  عوام پر بمباری، گولہ باری کے ذریعے ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم  کی ہیں، جن  سے تاریخِ انسانی کے بڑے بڑے ظالم، جابر حکمران بھی شرما گئے ہیں اور جس نے  صیہونیوں کے اہلِ فلسطین پر ظلم و بربریت اور  قتلِ عام کے   75 سالہ ریکارڈ کو بھی مات دے دی  ہے۔ غاصب صیہونی فوج  کی اس دہشت گردی اور قتلِ عام  کے نتیجے میں  اب تک لگ بھگ 32   ہزار فلسطینی شہید ہوچکے  ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین بالخصوص نوجوان اور حاملہ خواتین کی ہے۔  75  ہزار سے زائد فلسطینی  زخمی اور دیگر  ہزاروں ایسے ہیں جو صیہونی   طیاروں کی وحشیانہ  بمباری سے ملیامیٹ ہونے والی رہائشی عمارات  کے ملبے تلے دفن ہیں۔  چھ  ماہ کی مسلسل بمباری اور بلااشتعال گولہ باری نے 23 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ پٹی کو ملبے کے ڈھیر  میں تبدیل کردیا ہے ۔ غزہ کے 23 لاکھ باسیوں میں سے  80 فیصد سے زائد  آبادی بےگھر ہوچکی۔  اس وقت 15 لاکھ سے زائد اہلِ غزہ  ایک ایئرپورٹ سے بھی کم علاقے پر مشتمل رفح کی خیمہ بستی میں پناہ گزین ہیں۔ جبکہ ہزاروں ، لاکھوں دیگر پناہ گزین ایسے ہیں جنہوں نے اسپتالوں، شیلٹر ہومز، سکولوں اور عام چوکوں چوراہوں کو اپنا مسکن بنالیا ہے، جو آئے روز صیہونی فوج کی درندگی اور بمباری کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ غزہ کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل اور ایک ایسے جہنم میں تبدیل کردیا گیا ہے   جہاں  آئے روز صیہونی فوج کی بمباری اور قتلِ عام سے فلسطینیوں  کی  نسل کشی کا گھناؤنا کھیل جاری  ہے۔ اقوامِ متحدہ ،  انسانی حقوق کے عالمی  ادارے، عالمی عدالتِ انصاف اور اس کے بے دست و پا ججز کی رولنگ، اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی اُنروا (UNRWA)، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں، دُنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم ممالک میں اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے خلاف تاریخ ساز مظاہرے، کوئی چیز  اسرائیلی صیہونی دہشت گردی کو روک نہ سکی۔   اس وقت  غزہ کے کل 35 میں سے دو، تین اسپتال کو چھوڑ کر باقی سب نان فنکشنل ہیں۔ ایک طرف سے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی اُنروا  (UNRWA) پر حماس کی امداد کا بے بنیاد الزام لگاکر مغربی ممالک نے ان کی فنڈنگ اور غزہ میں اس کے ذریعے امدادی اشیاء کی فراہمی بند کردی ہے تو دوسری طرف صیہونی  درندے رفح بارڈر کے ذریعے مصر سے آنے والی عالمی امدادی ٹرکوں کو روک کر ،بھوک اور پیاس کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے  فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔غذائی قلت کے باعث  اب تک 27 بچوں کی موت واقع ہوچکی ہے،  جبکہ صیہونی فوج کے بار بار ہسپتالوں  پر حملے ،  ڈاکٹرز اور دیگر عملہ ، والدین و تیمارداروں کو اغواء کرنے کے باعث علاج معالے اور دیکھ بھال سے محرومی کے باعث  جاں بحق ہونے والے نومولود بچے ان کے علاوہ ہیں۔ اس وقت  غزہ  پٹی کی 23 لاکھ آبادی  پتھر کے دور سے بھی بدتر  زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ القسام بریگیڈ اور دیگر مجاہد تنظیموں کے مقابلے سے عاری بزدل صیہونی فوجی  معصوم اور نہتےشہریوں اور شہری آبادی کو نشانہ  بناکر  اپنی سفاکیت اور بربریت کی پیاس بجھارہی  ہے۔  امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور فوجی، جانی و مالی امداد اور تعاون کیساتھ  جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کی اس مہم  میں  اسرائیل اب تک  اتنے شہری قتل کرچکا  جتنے 20 سالہ افغان جنگ میں بھی نہیں ہوئے۔ زندہ فلسطینی، نوجوانوں، خواتین  تو کیا  شہداء کی اجتماعی قبروں تک  کی بےحرمتی کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے۔   غزہ کے  پناہ گزین کیمپوں، ایمبولینسوں، میڈیا سنٹرز، ہسپتالوں، سکولوں، مساجد، چرچوں، بازاروں اور پبلک مقامات سمیت کوئی جگہ ایسی نہیں بچی   جسے صیہونی دہشت گردوں نے وحشیانہ بمباری کا نشانہ بناکر ملیامیٹ نہ کردیا ہو۔  چھہ ماہ سے مسلسل صیہونی جارحیت اور بربریت کا سامنا کرتے، شہداء کے لاشے اور زخمیوں کے جسدِ خاکی اُٹھاتے  بھوک پیاس سے نڈھال غزہ پٹی  کے بچوں، خواتین، نوجوانوں، بزرگوں کا عزم و حوصلہ اور ثابت قدمی ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔
حماس  کے مجاہدین بھی  اس بدترین صیہونی جارحیت کا  بڑی جوانمردی کیساتھ سیسہ پلائی ہوئی  دیوار بن کر مقابلہ کررہے ہیں اور   اپنی کامیاب کارروائیوں کے ذریعے بزدل صیہونی افواج  کو ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان پہنچا رہے ہیں۔  اربوں ڈالر کی اسرائیلی  وار مشین کے مقابلے میں   حماس کے القسام بریگیڈ  اور دیگر مجاہد ین نے  خودساختہ الیاسین RPG  اور معمولی ہتھیاروں کیساتھ غزہ پٹی کو  صیہونی فوجیوں،  ٹینکوں  اور  فوجی گاڑیوں کا قبرستان بناکر اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے جھوٹے دعوے کو خاک میں ملادیا ہے۔ امریکہ و برطانیہ سمیت  دنیا بھر کی فوجی طاقتوں کی حمایت اور جدید ٹیکنالوجی کے باجود آج تک صیہونی فوج نہ تو مجاہدین کے ٹھکانوں تک پہنچی سکی ہے  اور نہ ہی کسی مجاہد کو گرفتار کرسکی   ہے۔  اب  تک سیکڑوں  صیہونی دہشت گرد فوجی مجاہدینِ غزہ  کے حملوں کا نشانہ بن کر جہنم واصل ہوچکے ہیں۔  اہلِ بدر کی طرح بے سر و سامانی کیساتھ لڑنے والے یہ مجاہد  جنگجو   قابض صیہونی فوج پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے ہیں۔ یوں حماس کے “طوفان الاقصٰی”  آپریشن  نے امریکی-صیہونی سازش کے تحت مسئلہ فلسطین کو پسِ پشت ڈال کرعرب ممالک کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی  سازش ناکام بنادی ہے۔  پوری دُنیا میں لاکھوں مسلم و غیر مسلم عوام نے سڑکوں پر نکل کر  اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق میں تاریخ ساز مظاہرے کرکے  دنیا بھر کے حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل ناجائز اور غاصب ریاست ہے، جس کا خاتمہ نوشتہ دیوار  ہے۔
دوسری طرف مقامی اور بین الاقوامی  میڈیا بالخصوص الجزیرہ ٹی وی نے اس تاریخ ساز معرکے میں   بہت ہی مثبت اور جراتمندانہ کردار ادا کیا ہے۔ قابض صیہوی افواج تاک تاک کر جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنارہی ہے، جس  کے نتیجے میں اب تک  کم و بیش 150 صحافیوں نے اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران  جامِ شہادت نوش کیا۔ بہت سارے صحافیوں کو صیہونی فوج اغواء کرکے لے گئی ۔ کئی صحافیوں کے گھروں پر وحشیانہ بمباری کرکے ان کے پورے پورے  خاندان کو شہید کردیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی کے بیورو چیف وائل  الدحدوح کی بیوی، بچوں، پوتوں سمیت  تقریباً پورے خاندان کو شہید کیا گیا۔ خود وہ بھی دو مرتبہ صیہونی میزائلوں کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوئے اور اس وقت قطر میں زیر علاج ہیں۔   اتنی بڑی قربانی  کے باوجود الدحدوح اور اس جیسے دیگر مرد و خواتین صحافی   اپنی جان پر کھیل کر حق بات کہنے اور صیہونی بربریت کو دُنیا بھر میں بےنقاب کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ اِسی طرح غزہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی جرات اور استقامت بھی قابلِ رشک ہے، کہ مشکل ترین وقت میں صیہونی فوج کی بار بار دھمکیوں کے باوجود وہ یہی کہتے ہیں  کہ ہم کسی صورت زخمیوں اور شہیدوں کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ چاروں طرف سے بمباری اور گولہ باری کے باوجود اپنی جان کی پروا کیے بغیر الشفاء ہسپتال، القدس ہسپتال،  الاقصٰی ہسپتال،  الاَہلی عرب ہسپتال، انڈونیشین ہسپتال،  النصر ہسپتال، یورپین ہسپتال،  اردن کا فیلڈ ہسپتال، اقوامِ متحدہ کے تحت چلنے والے شفاء خانوں اور ایسے ہی دیگر علاج گاہوں  میں  زخمی فلسطینیوں کی مرہم پٹی اور علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف  نے شہیدوں کا سہارا بنتے بنتے اپنی جانیں جاں آفریں کے سپرد  کردیں لیکن جذبہ ایمانی پر لغزش نہ آنے دی۔ اللہ رب العزت اِن تمام شہداء کی یہ لازوال  قربانیاں  یقیناً اپنے بارگاہِ ایزدی میں قبول فرمائیں گے، انشاء اللہ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ   ؎
جان  دی   دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
07 اکتوبر 2023ء سے لیکر  48 روز تک  مسلسل جنگ کے بعد قطر، مصر اور دیگر ممالک کی کوششوں سے اسرائیل نے حماس کیساتھ  چار  روزہ جنگ بندی معاہدہ  کیا ، جس کے تحت پہلے مرحلے میں چار روزہ جنگ بندی کے دوران 50 اسرائیلی  یرغمالیوں  کے بدلے 150 فلسطینی رہا کیے گئے۔ جنگ بندی معاہدہ میں دو دن توسیع اور پھر ایک دن مزید توسیع  کے بعد مزید قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔  دوسری طرف  غاصب اسرائیلی فورسز   نےمغربی کنارے میں معاہدے کی خلاف ورزی کرکے  پُرتشدد کارروائیاں شروع کردیں، جن میں مزید   کئی فلسطینی نوجوان شہید ہوگئے، جبکہ  دوسری طرف حسبِ معاہدہ  اسرائیلی  قید سے رہا کیے گئے قیدیوں سے بھی زیادہ تعداد میں مزید فلسطینیوں کو صیہونی  فوج مغربی کنارے اور غزہ سے اغواء کرکے ساتھ لے گئی، جن میں غزہ سے اغواء ہونے والی درجنوں  دودھ پلانے والی مائیں بھی شامل  ہیں، جنہیں اُس دوران اغواء کرکے جیلوں میں ڈالا  گیا جب  وہ  معاہدے کے تحت شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف پیدل نقلِ مکانی کررہی  تھیں۔   اسرائیلی جیل سے رہا ہونے والی خواتین نے دورانِ حراست اسرائیلی جیلوں میں اُن پر ہونے والے  بدترین جسمانی، نفسیاتی  تشدد کا احوال بیان کیا۔   دوسری طرف حماس کی قید سے رہا ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں  کیساتھ  دورانِ قید حماس کے  انتہائی شفقت آمیز رویہ  کی تصدیق  خود اِن یرغمالیوں  سمیت  ریڈ کراس اور دُنیا بھر نے کی۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی اہلِ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور بمباری مسلسل  جاری ہے۔ روزانہ اوسط شہادتیں 100 تک پہنچ چکی ہیں۔ جنگ بندی کی متعدد کوششیں اسرائیل کی ڈھٹائی کے آگے ناکام ہوچکی  ہیں۔  تنازعہ کا واحد حل یہ ہے کہ  اُمتِ مسلم اب اُمتِ واحدہ بن کر سرزمینِ فلسطین کو غاصب ناجائز صیہونی قبضے سے نجات دِلانے کے لیے ٹھوس اور قابلِ عمل اقدامات کرے۔ بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ کے اتحاد میں اس وقت  سب سے بڑی رُکاوٹ اگر کوئی ہے تو وہ خود  مسلم حکمرانوں کی بےحسی اور بےحمیتی  ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا واحد  راستہ غاصب صیہونی ریاست کا خاتمہ اور فلسطینیوں کو اُن کی سرزمین کی واپسی ہے۔
بعض عاقبت نااندیش لوگ  اہلِ غزہ پر بدترین  صیہونی دہشت گردی  اور قتلِ عام  کو حماس کے 07 اکتوبر 2023ء کے “طوفان الاقصٰی” آپریشن کا ردعمل قرار دے کر اسرائیل کیساتھ ڈپلومیسی کے ذریعے  مسئلہ حل کرنے کی بات کرتے  ہیں۔ لیکن ایسا سوچتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کہ 1948ء میں ناجائز صیہونی  ریاست کے قیام کے بعد جاری مسلسل  ڈپلومیسی کا اب تک  کیا نتیجہ نکلا  ہے؟ کیا ناجائز اسرائیلی ریاست کی پے درپے حکومتیں  اپنے امریکی و یورپی  سرپرستوں  کے ذریعے فلسطینیوں کیساتھ  کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کررہی  ہیں  یا صورتِ حال اس کے برعکس ہے؟  کیا  عالمی برادری اس نام نہاد ڈپلومیسی کے ذریعے  اہل غزہ کو  کسی کنٹینر نما علاقے  میں 17 سالہ  قید و بند  اور  گھٹن زدہ زندگی سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئی؟  بالکل، نہیں بلکہ وہ تو ناجائز صیہونی ریاست کو دوام بخشنے کے ایجنڈے کے تحت  “صدی کی ڈیل” اور “معاہدہ ابراہیم” جیسے فلسطین کُش منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے اسرائیل کیساتھ معاہدے کے لیے عرب ممالک کو راضی کرچکیں اور اہلِ فلسطین  جن عرب ممالک پر  تکیہ کیے بیٹھے تھے وہ بھی ناجائز صیہونی ریاست کے  ظلم  و ستم کو بھلاکر کچھ اپنی بزدلی اور کچھ  مالی مفادات کے تحت  اسرائیل   کے ساتھ معاہدہ کرنے پر راضی ہوگئے اور اسرائیل دوستی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ سعودی عرب، یو اے ای، مصر اور عراق جیسی بڑی عرب ریاستیں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیلی کو تیل سپلائی کررہی ہیں اور انہیں لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کررہی ہیں۔
وائے     نادانی     متاعِ     کارواں     جاتا     رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
 اپنوں اور غیروں کی بے وفائی اور ظلم و ستم سے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق  اہلِ غزہ نے اب  ظالم کے سامنے  سرنگوں ہونے کی بجائے جانبازی کیساتھ لڑنے کو شعار بنالیا ہے  اور  اپنے اس عمل کیساتھ دنیا بھر کے امن پسند عوام کی  حمایت حاصل کرکے تاریخ میں امر ہوگئے ہیں۔ جو لوگ اسرائیل کیساتھ  ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں انہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ افغان طالبان نے جارحیت کرنے والے امریکی و نیٹو افواج  کو  مسلح مزاحمت کے ذریعے ہی تاریخ ساز شکست سے دوچار کرکے  پوری  دنیا سے اپنی طاقت اور صلاحیت کا لوہا منوایا۔ ظالم کے خلاف لڑنے والے کو شہادت کا درجہ حاصل ہے، اور جب ظالم جارحیت پر اتر آئے تو اُس کا ہاتھ روکنا اور اس کے خلاف لڑنا عینِ اسلام ہے۔  نہ کہ اُسے اجازت دی جائے کہ وہ جتنا چاہے ظلم کرتا رہے۔ ویت نام میں امریکی فوج کی شکست اسی طرح ٹنل وار کے ذریعے ہوئی تھی۔ انشاءاللہ! ناجائز اسرائیلی ریاست کا خاتمہ قریب ہے۔  تاریخ کا سبق بھی  یہی ہے کہ جنگیں عددی یا تکنیکی برتری سے نہیں بلکہ جذبہ جہاد، شوق شہادت اور اللہ کی مدد و نصرت سے جیتی جاتی ہیں۔ قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ اس اصولِ خداوندی کو واضح کرتی ہے:
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُـوْدِ قَالَ اِنَّ اللّـٰهَ مُبْتَلِيْكُم بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٝ مِنِّىٓ اِلَّا مَنِ اغْتَـرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهٖ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْـهُـمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهٝ هُوَ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَعَهٝ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُـوْدِهٖ ۚ قَالَ الَّـذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّـهُـمْ مُّلَاقُو اللّـٰهِ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ (البقرہ: 249)
“پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلا، کہا بے شک اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں ہے اور جس نے اسے نہ چکھا تو وہ بےشک میرا ہے، مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے (تو اسے معاف ہے)، پھر ان میں سے سوائے چند آدمیوں کے سب نے اس کا پانی پی لیا، پھر جب طالوت اور ایمان والے اس کے ساتھ پار ہوئے تو کہنے لگے آج ہمیں جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں، جن لوگوں کا  خیال تھا کہ انہیں اللہ سے ملاقات کرنی  ہے وہ کہنے لگے بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب ہوئی ہے، اور  اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
غزوہِ بدر کا پیغام یہی ہے کہ معرکہ حق و باطل  میں بے سر و سامانی کے باوجود  اہلِ ایمان جب ثابت قدمی دِکھاتے ہیں تو پھر مشیتِ ایزدی کے تحت اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر بھی غلبہ اور فتح اُن کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ لیکن خدائی نصرت اور تائید تبھی حاصل ہوگی  جب  اُمتِ مسلمہ تمام مسلکی، گروہی، لسانی  اختلافات اور تعصبات  کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُمتِ واحدہ  کی طرح  یک جان، یک زبان  ہوکر دشمن کے مقابلے میں  سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرلے۔ منتشر، متنفر  اور  بِکھری ہوئی قومیں کبھی اپنے دشمنوں پرغالب نہیں آسکتیں، یہی تاریخ کا سبق  اور یہی غزوہِ بدر کا پیغام ہے۔ وما علینا اِلا البلاغ