سپریم کورٹ میں درخواست گزاربینک کی اپیل منظور ، سندھ ہائی کورٹ اور ٹربیونل کے فیصلے کالعدم قرار


 اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ بینک میں جاکرکروڑوں روپے جمع کروائیں ایک پرچی ملتی ہے اورآدمی مطمئن ہو کرگھر چلا جاتا ہے، اس پر شک ہو گیا توپھرسارا نظا م درہم برہم ہو جائے گا۔ ایک بینکر کو غلط کام کرنے پر ریوارڈ تونہیں کرسکتے۔بینک کے معاملے پر زیروٹالیرنس ہے، میں بطور جج بھی بینک میں جاتا ہوں تو بینک والے کہتے ہیں وقت ختم ہو گیا ہے کل آجائیں تومیں واپس آجاتا ہوں۔ بڑی رقم پکڑی جاتی ہے اور چھوٹی رقم نظرانداز ہوجاتی ہے۔ ہم نے ہر بینکر کو سرکاری ملازم بنادیا، ہم ہمدردی ان چیزوں میں دکھاتے ہیں جو ہماری جیب نہیں جانی ہوتی، سرکاری ملازم اس لئے بنتے ہیں کہ نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں اگر ایسا معاملہ سپریم کورٹ تک آتا توآپ کے خلاف کریمینل کیس ہوتا جبکہ عدالت نے 2001میں ساڑھے52ہزار روپے کا فراڈ کرنے والے مرحوم بینک کیشیئر کی بحالی کے حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ کورٹ اور ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے لیبر کورٹ کا ملازمت سے برطرفی کا بحال کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الائیڈ بینک لمیٹڈ کراچی کی جانب سے لواحقین کے توسط سے مرحوم طارق محمود کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار بینک کی جانب سے شاہد انور باجوہ اور مدعا علیہ کی طرف سے منیر احمدپراچہ بطور وکیل پیش ہوئے۔مرحوم کیشیئر کے لواحقین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔مرحوم کیشیئر طارق محمود کو بینک میں کسٹمرز سے رقم لے کر اکاؤنٹ میں جمع نہ کرنے اور بل کی رقم بینک میں جمع نہ کرنے پر نوکری سے نکالا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شاہد انور باجوہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلا فیصلہ آپ کے حق میں اوردوسرا خلاف آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر دونوں فریقین کو نہیں کھیلنے دیں گے۔ منیر پراچہ نے کہا کہ 14اپریل 2001کو مرحوم کیشیئر طارق محمود نے رفاقت حسین کی جانب سے جمع کروائی گئی45ہزارروپے کی رقم کا اندراج نہیں کیا یہ تسلیم شدہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ساری باتیں مان لیں توبات ختم ہو گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ مرحوم کیشئر بینکر ہیں کوئی بچے نہیں، کیشئر ہیں، کسٹمر کو رسید دے رہے ہیں بینک کی لائیبلٹی بن گئی، کیشئر اہم شخص ہے، اگر کسٹمر تاخیرسے آیا توپیسے کیوں لئے اوررسید کیوں دی، کیشیئر کی ڈیوٹی کیا ہے، آپ جانے بینک جانے ہم کیا کریں۔ منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ رفاقت حسین نے 45ہزارروپے تاخیر سے جمع کروائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج نے شکایت کنندہ کی شکل تونہیں دیکھنی، مدعا علیہ نے دوسرے کیشیئر ہدایت اللہ بھٹو کو پیش نہیں کیا، آپ بھٹو کو بلاتے کہ آپ نے مجھ پر لائیبلٹی ڈال دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹریبونل کا فیصلہ برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اُس کو دے دیئے، اُس کو دے دیئے،، اُس کو پیش کرتے اورجرح کرتے کہ بھٹو کو نکالیں اور مجھے نہ نکالیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بینک میں جاکرکروڑوں روپے جمع کروائیں ایک پرچی ملتی ہے اورآدمی مطمئن ہو کرگھر چلا جاتا ہے، اس پر شک ہو گیا توپھرسارا نظا م درہم برہم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارابوجھ مدعا علیہ نے اپنے اوپر لے لیا، انکوائری کس بات کی کریں، پیسے لئے اوررسید دی اور بینک کی لائیبلٹی زندہ کردی، انکوائری کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

چیف جسٹس کامنیر پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر مدعا علیہ آپ کو پہلے وکیل کرلیتے تو شاید بہتر جواب بن جاتا۔ شاہد انور باجوہ کا کہنا تھاکہ کسٹمر نے چار ماہ بعد اگست میں شکایت درج کروائی کہ اس کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع نہیں ہوئے، اس کے بعد مرحوم کیشئر کی جانب سے پیسے واپس کئے گئے، ایک پیسے کا بھی فراڈ ہے اور52ہزار روپے کا بھی فراڈ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک دن دیر سویر ہو گئی، دوسرے یاتیسرے دن جمع کروادو، چارماہ بعد شکایت کروانے پر جمع کروائے، پتہ  نہیں کتنے لوگوں سے کسٹمر نے خط وکتابت کی ہوگی اور کتنی پریشانی کاسامنا کیا ہو گا کہ میرے 45ہزارروپے کدھر گئے، ایک بینکر کو غلط کام کرنے پر ریوارڈ تونہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں بطور جج بھی بینک میں جاتا ہوں تو بینک والے کہتے ہیں وقت ختم ہو گیا ہے کل آجائیں تومیں واپس آجاتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ جاکربینک منیجر کو شکایت کردیتے کہ بھٹو نے میرے ساتھ بدمعاشی کردی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں کتنے سراغ لگے بغیر نظرانداز ہو گئے ہوں گے، کروڑوں روپے پر جھگڑا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے پتہ نہیں بینک کاکتنا نقصان کیا، شاہد انور باجوہ نے کہا کہ بینک کے مفت میں کیسز کررہے ہیں، بڑی رقم پکڑی جاتی ہے اور چھوٹی رقم نظرانداز ہوجاتی ہے۔ چیف جسٹس کا منیراحمد پراچہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شکر کریں شاہد انور باجوہ کی فیس آپ سے ریکور نہیں کرلی۔ منیر پراچہ نے عدالت سے استدعا کی کوئی راستہ نکالیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی راستہ نہیں نکالنا، بینک کے معاملہ پر زیروٹالیرنس ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر بینکر کو سرکاری ملازم بنادیا، ہم ہمدردی ان چیزوں میں دکھاتے ہیں جو ہماری جیب نہیں جانی ہوتی، سرکاری ملازم اس لئے بنتے ہیں کہ نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں اگر ایسا معاملہ سپریم کورٹ تک آتا توآپ کے خلاف کریمینل کیس ہوتا۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھاکہ طارق محمود نے رقم وصول کرکے رسید دی اور دستخط بھی کیئے تاہم رقم بینک ریکارڈ میں ریفلیکٹ نہیں ہوئی، دوسرے روز بھی رقم جمع نہیں کروائی اور چار ماہ تک معاملہ یونہی چلتا رہا اور اس کے بعد کسٹمر سامنے آیا کہ اس کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں ہوئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ لیبر کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔ ٹریبونل کا فیصلہ برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ عدالت نے درخواست گزاربینک کی اپیل منظور کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ اور ٹربیونل کے فیصلے کالعدم قراردے دیئے اور لیبر کورٹ کا مدعا علیہ کو نوکری سے فارغ کرنے کا13جنوری2004کا فیصلہ بحال کردیا۔