سٹیٹ کرافٹنگ کا فقدان : تحریر نعیم قاسم


پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ یہ مستقبل پر نظر رکھنے کی بجائے ماضی کی الجھنوں میں پھنسی ہوئی ہے اور پسماندگی، جہالت اور سیاسی عدم استحکام کے منحوس دائرے میں محو سفر ہے جسکی بڑی وجہ سٹیٹ کرافٹنگ کے ہنر سے نا آشنا ئی ہے پاکستان کو جدید اور ترقی یافتہ مملکت بنانے کے لیے مطلوبہ statesmanship کبھی میسر ہی نہیں رہی ہے 75 سال کے عرصہ حیات میں پاکستان کی سیاست، معاشرت، معیشت، کلچر، تہذیب، تجارت اور ڈپلومیسی مسلسل زوال پذیر ہے یہاں عوام کو نہ کبھی سول حکمرانی اور نہ ہی کبھی فوجی آمریت اور ہابریڈ (کنٹرولڈ جمہوریت اور جرنیلو کریسی کا ملغوبہ) نظام حکومت میں سکھ کا سانس ملا ہے ہر دور میں متوسط اور غریب طبقہ معاشی مشکلات کا شکار رہا ہے اور بالائی طبقہ دن بدن با آثر اور خوشحال ہوتا رہا ہے دولت کا ارتکاز ہمیشہ سے چند ہاتھوں میں موجود رہا ہے اور نچلے طبقوں تک اس کے ثمرات بہت ہی کم سطح پر سرایت پزیر (Trikle Down) ہوئے ہیں ڈپلومیسی کے لحاظ سے ہم عرصہ دراز تک کمیونزم کے خلاف امریکہ کے اتحادی رہے جب ہماری ہندوستان سے جنگیں ہوئیں تو امریکہ نے ہماری فوجی امداد بند کر دی مگر اس کے باوجود ہم ڈالرز کے لیے افغانستان میں سویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بنے رہے جس کے نتیجے میں ہماری معاشرے کا تانا بانا تباہ و برباد ہو کر رہ گیا اور ریاست کے اندر نان سٹیٹ ایکٹرز کا راج قائم ہو گیا ایران، ہندوستان اور افغانستان تینوں سے ہماری مخاصمت قائم و دائم ہے اور واحد دوست چین سے ہم اسقدر قرضے لے چکے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی ہے اور عالمی اداروں نے ہمیں صاف کہ دیا ہے کہ ان کے مہیا کردہ قرضوں سے ہم چینی اداروں کو ادائیگییاں نہیں کر سکتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ جب ہم چین کے ساتھ اپنے کاروباری معاہدوں کی پابندی نہیں کر پائیں گے تو مثالی دوستی برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور آج ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان عالمی تقاضوں سے مکمل عدم مطابقت کا شکار ہے ساری دنیا کے مبصرین بمشول امریکہ نے ہمارے موجودہ الیکشن کی عدم شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر ہماری وزارت خارجہ نے ڈپلومیسی کی روایات کے بر خلاف امریکہ اور یورپی ممالک کے مبصرین کو کہا ہے کہ آپ پاکستان کی انتخابی حقیقتوں سے نا واقف ہیں اور آپ کے اعتراضات ہمارے لیے بے معنی ہیں واقع ہی ان کو کیا پتہ کہ فارم 45 میں جیتنے والوں کو فارم 47 میں کیسے ہرایا جاتا ہے اور ری کاؤنٹنگ میں حکمران جماعت کے دوسرے نمبر پر آنے والوں کو کیسے کامیاب کیا جاتا ہے ویسے تو ڈونلڈ لو کے سائفر پر عمران خان کے خلاف بیانات پر حکومتی سیاست دان تعریفوں کے پل با ندھ رہے ہیں مگر جب وہ انتخابات میں دھاندلی پر امریکی حکومت کی تشویش کا اظہار کرتا ہے تو وزارت خارجہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے

اس کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیتے ہیں حالانکہ کے سب کو پتہ ہے کہ مغربی ممالک کی فنڈنگ کا تعلق جمہوریت کی شفاف بحالی سے ہوتا ہے سٹیٹ کرافٹنگ کے فقدان اور ناقص اور جامد ڈپلومیسی سے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم نہ تو معاشی بحران سے نکل پا رہے ہیں اور نہ ہی سیاسی مدوجزر تھم رہے ہیں
پاکستان میں سول سیاست دانوں کی اکثریت کا مؤقف ہے کہ پاکستان سیاست دانوں کی جدوجہد سے معرض وجود میں آیا ہے یہ کوئی فوجی فتوحات کی پیداوار نہیں ہے لہذا اس کو اچھے برے طریقے سے چلانے کا حق سیاست دانوں کا ہے دوسری جانب فوجی نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر سیاست دانوں کی باہمی چپقلشوں اور نا اہلیوں سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے تو فوج کا یہ کام ہے کہ وہ مداخلت کرے اور ملکی بھاگ دوڑ سنبھالے کیونکہ ریاست کو بچانا ان کا اولین فرض ہے اس کے لیے آئین، قانون اور صاف شفاف انتخابات اور جینوئن عوامی قیادت کے معاملات ترجیح اول نہیں ٹھہرایے جا سکتے ہیں اس پر ایک اینکر پرسن نے یوں بات کی ہے “اگر کسی گھر کے تمام بچے ہیروئین کا نشہ کرنا شروع کر دیں اور اس کو اپنا جمہوری اور شخصی حق قرار دیں تو کیا باپ انہیں اس کی اجازت دے سکتا ہے” جب ملکی معاملات کو گھریلو معاملات کی طرح باپ کی صوابدید پر چلایا جائے گا تو سٹیٹ کرافٹنگ کہاں سے جنم لے گی باپ بیشک بچوں کو افورڈ کر رہا ہو مگر بچے سختی کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں لیکن اگر بچے باپ کو افورڈ کر رہے ہو ں تو وہ کب تک فرنبرداری سے باپ کی بات مانیں گے چاہے وہ ان کی بھلائی کی کیوں نہ ہو _پاکستان کا یہ المیہ عظیم ہے کہ نہرو کی طرح اسکو کوئی ایسا لیڈر اور حکمران نہیں ملا ہے جو سٹیٹ کرافٹنگ کے وژن سے آشنا ہو اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بھارتی سیاست کو جذبات

اور تقدسات کے خلاف خود تنقیدی، خود احتسابی اور مستقبل بینی کے کلچر کی بنیادیں فراہم کیں سائنسی تعلیم کو عقائد سے پاک کر کے اسے سیکولرازم کی چھتری مہیا کی بھارت کو اکنامک پاور بنانے کے لیے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی اور اپنی ڈپلومیسی سے مغربی اور مشرقی بلاکس کی حمایت برقرار رکھی اور کشمیر کے مسئلے کو دبائے رکھا نریندر مودی کے ہندواتا تعصبات کے باوجود اس کی ڈپلومیسی کی یہ کامیابی ہے کہ اب گلف اسٹیٹس بھی ہندوستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں اقلیتوں پر ہندوانہ جذبات اور تقدسات کے جبر کے باوجود معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد سے زائد پر برقرار رکھے ہوئے ہے اور انتخابی شفافیت سے دو دفعہ الیکشن جیت چکا ہے اور اپوزیشن بھی اس کے جائز طریقے سے الیکشن جیتنے پر اپنی شکست تسلیم کر لیتی ہے مگر ہمارے ہاں 12 انتخابات میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ جیتنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو اپوزیشن نے تسلیم کیا ہو اور الیکشن کی شفافیت پر حرف نہ اٹھایا گیا ہو نہرو کی سٹیٹ کرافٹنگ کا ہنر ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی حکومت ہو کسی بھی نظریے اور سوچ کی حامل ہو وہاں پر صنعت اور ٹیکنالوجی ارتقاء پزیر ہے اور ڈپلومیسی میں اس کا stance ہمیشہ سے ایک رہا ہے چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بے بی جے پی کی دونوں کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں
جبکہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر طرف تقدسات اور جذبات کے پروردہ مقدس اوتار بیھٹے ہوئے ہیں جن پر تنقید کرنا جرم عظیم ہے اور ملک و ملت سے غداری ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان ابھی تک قبائلی عصبیتوں، علاقہ پرستی، اداراتی برتری، سیاسی محاذ آرائی، فرقہ واریت، دہشت گردی، لسانی، گروہی اور نسلی امتیازات کے گورکھ دھندوں میں الجھا ہوا ہے ہم کبھی بھی عالمی معاشی اور تہذیبی عناصر سے ہم آہنگ نہیں ہوتے ہیں جدت پسندی، لبرل سوچ و فکر اور سائنسی اور منطقی طرز فکر اور جدلیاتی ارتقاء سے ہمیں زمین آسمان کا بیر ہے ہم اپنے سماج اور ریاستی امور میں بناوٹی تبدیلیوں پر مبنی ایسے سماجی اور سیاسی بیانیے اجاگر کرتے ہیں جو آفات کے نازل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بڑوں سے غلطی ہو گئی تھی جنہوں نے نیشنلا ئزیشن کی، سٹریٹجک ڈیپت کا نظریہ دیا بھٹو کی حکومت ختم کرنے کی تحریک کو نظام مصطفی تحریک کا نام دے کر ضیاء الحق کی آمریت قائم کی ہماری فرسودہ حکمت عملیوں کی وجہ سے ہم کسی ایک شعبے میں بھی عالمی درجہ بندی میں نہیں ہیں کھیلوں کے شعبے میں کبھی ہاکی، کرکٹ اور سکوائش کے میدان میں ہماری حکمرانی تھی ہماری پی آئی اے کا نام تھا مگر آج ہماری شہرت منفی کاموں میں نمایاں ہے ہمیں دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے ہمارے معاشی ارسطو جن کی اکثریت عالمی اداروں سے آتی ہے وہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ لادتے رہتے ہیں اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے چکر میں سخت قوانین سے کاروباری طبقے کو خوفزدہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے وہ منی لانڈرنگ کے ذریعے اپنی جائز اور ناجائز دولت باہر کے ممالک میں لے جاتے ہیں جسکی وجہ سے پاکستان کی معیشت بیٹھنا شروع کر دیتی ہے

بیروزگاری اور معاشرتی افراتفری میں اضافہ ہو تا ہے کرپشن کا پیسہ ملک میں ہی گردش کرے اور سرمایہ کاری میں استعمال ہو تو میکرو اکا نومی کو استحکام حاصل ہو گا کیونکہ دولت بڑھانے کے لالچ سے ہی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتا ہے اور ہمیشہ ریاستی اداروں کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ سرمائے کی تشکیل کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں دوبئی اور چین نے یہی کام کیا وہ کسی سے نہیں پوچھتے ہیں کہ پیسے کی منی ٹریل فراہم کریں اگر وہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں آپ میری اس منطق کو اخلاقی بنیادوں پر رد کر سکتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں اخلاقیات کی پاسداری سے امیر نہیں ہوا جا سکتا ہے ہر امارات کے پیچھے ایک کرائم چھپا ہوتا تو اس کا حل یہی ہے کہ کالا دھن کو پاکستان کی معیشت میں داخل ہونے کا راستہ دیا جائے تو ہو سکتا ہے مجسمہ برائی اپنے کردار میں سراپا خیر ثابت ہو جائے اس کے علاوہ معیشت، سیاست اور ریاست کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے چاہے جتنے مرضی آئی ایم ایف کے پروگرامز لے لیے جائیں ریاست بس ایک کام کرے لٹیروں اور کرپٹ عناصر کو پیسہ ملک سے باہر نہ لے جانے دے جس کی سرمایہ کاری باہر ہو اس کی شہریت پاکستان میں ضبط کر لی جائے اور پاکستان میں سیاست وہی کرے جس کے معاشی سٹیک پاکستان میں ہیں کیونکہ یہ بدیہی حقیقت ہے کہ جب تک وسائل رزق کی فروانی نہ ہو تو ضروریات زندگی سے محروم عوام زیادہ عرصہ تک نیک اور پریز گار نہیں رہ سکتے ہیں ہم کریکٹر کو اخلاقی قوت محرکہ سمجھتے ہیں جب کہ خوشحالی کی قوت محرکہ ہنر مندی ہے اور صنعتی، زرعی اور ٹیکنالوجی کے ذرائع کی ترقی اور نشوونما کے بغیر کسی بھی قسم کے دیرپا انفرادی اور قومی کردار کو برقرار رکھنا نا ممکن ہے ساری دنیا اور وہ ممالک جو کبھی ہم سے پیچھے تھے آج اپنی ہنر مندی سے ہم سے کئی درجے آگے ہیں دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں ہما را گروتھ ریٹ ایشیا میں سب سے زیادہ تھا اور ہم نے ہر شعبے میں اپنے اہداف اصل سے کہیں زیادہ حاصل کیے آج چین، جاپان اور کوریا کو تو چھوڑیں بنگلہ دیش اور ہندوستان حتی کہ ایران، ملائشیا اور گلف کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ
ع ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جہنیں تصویر بنا آتی ہے