22مارچ 2024 کا دن بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک اور بد قسمت دن ثابت ہوا ہے ۔ اس روز بھارت کی الہ آباد ہائیکورٹ کے دو ججوں( جسٹس ویوک چوہدری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی) نے فیصلہ سنایا کہ اتر پردیش میں جتنے بھی مساجد و دینی مدارس ہیں، یہ سب غیر آئینی اور بھارت کے سیکولرآئین سے متصادم ہیں، اس لیے سب بند کردیے جائیں اور ان مدارس میں زیر تعلیم طلبا کو عام سرکاری اسکولوں میں ایڈجسٹ کیا جائے۔
انڈین ایکسپریس کا کہنا ہے کہ اِس وقت اتر پردیش میں25ہزار مسلمان مدارس بروئے کار ہیں۔ یہ سب بند کرنا پڑیں گے ۔اِس فیصلے نے بھارتی مسلمانوں میں ہیجان پیدا کر دیا ہے ۔
رواں رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں دہلی میں، سڑک پر، نمازِ جمعہ ادا کرتے مسلمانوں کو دہلی پولیس کے ایک باوردی اہلکار نے جس طرح ٹھڈے مارے، میڈیا پر ہم نے یہ دلدوز مناظر دیکھے ہیں ۔ابھی اِس سانحہ کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ گجرات میں زیر تعلیم غیر ملکی مسلمان طلبا پر بھارتی غنڈوں نے عین اس وقت حملہ کر دیا جب وہ اپنے ہوسٹل کے صحن میں با جماعت نمازِ تراویح پڑھ رہے تھے۔ کئی مسلمان طلبا زخمی ہو کر ابھی تک اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارت میں عام انتخابات سے قبل بھارتی مسلمانوں پر متشدد ہندوؤں کے ہاتھ زیادہ اٹھنے لگے ہیں۔
19اپریل تایکم جون2024 بھارت میں لوک سبھا یا قومی اسمبلی کی543نشستوں کے لیے عام انتخابات ہو رہے ہیں ۔ بڑے پہلوانوں میں ایک طرف بی جے پی کے نریندر مودی ہیں اور دوسری طرف انڈین نیشنل کانگریس کے ملک ارجن کھڑگے ہیں ۔ اِس وقت لوک سبھا میں بی جے پی کے پاس 289سیٹیں ہیں اور انڈین نیشنل کانگریس کے پاس 49۔بی جے پی این ڈی اے کی اتحادی ہے جب کہ کانگریس نے INDIA (Indian National Developmental Inclusive Alliance) کے ساتھ اتحاد کررکھا ہے جس میں40 سیاسی پارٹیاں شامل ہیں ۔
لوک سبھا میں کانگریس اور بی جے پی کی سیٹوں کو دیکھا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ دونوں پہلوانوں کا مقابلہ بے جوڑ ہے ۔ نریندر مودی کی پارٹی لوک سبھا میں اِسی طاقت کی بنیاد پر بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف من مرضیاں کررہی ہے۔بھارتی مسلمانوں پر اِن زیادتیوں کے باوجود کہا جارہا ہے کہ 2024کے عام انتخابات جیت کر نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے ۔
لوک سبھا کے انتخابات سے چند ہفتے قبل ، کسی ردِ عمل کی پروا کیے بغیر، نریندر مودی اور بی جے پی نے بھارت بھر میں Citizenship Act نافذ کر دیا ۔ ماہِ رمضان میں نافذ ہونے والا یہ ایکٹ بھارتی مسلمانوں کے صریح خلاف ہے ۔ اِس میں مودی حکومت نے ایسی غیر منصفانہ ترمیمات کی ہیں جن سے براہِ راست بھارتی مسلمانوں کے شہری اور بنیادی حقوق پر ضرب لگ رہی ہے ۔اِسی لیے بھارت میں مسلمان اِس ایکٹ کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں ۔
مودی کی حکومت مگر یہ ظالمانہ ، متعصبانہ اور استحصالی فیصلہ واپس لینے پر تیار نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مودی حکومت نے آج تک مقبوضہ کشمیر بارے آرٹیکل370 کے خاتمے کا حکم واپس نہیں لیا۔سٹیزن شپ ایکٹ کے نفاذ بارے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی، عمر فاروق، بھی احتجاجی آوازیں بلند کرنے والوں میں یہ کہہ کر شامل ہیں: مودی جی مذہبی کارڈ استعمال کرکے تیسری بار وزیر اعظم ہند بننا چاہ رہے ہیں۔
عمر عبداللہ ( جو خود بھی اپنے والد سمیت نئی دہلی کے پٹھو رہے ہیں) درست کہتے ہیں۔ مودی حکومت نے اِس ایکٹ کے نفاذ سے بھارت بھر کے متعصب، عناد زدہ مذہبی جنونی ہندووں کو خوش کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے ۔ مودی اور بی جے پی کو یقین ہے کہ مذہب کا یہ متعصبانہ کارڈ کھیلنے سے انہیں لوک سبھا انتخابات میں بڑی کامیابیاں ملیں گی ۔
بھارتی میڈیا کے اندر اٹھنے والی کئی آوازوں سمیت عالمی میڈیا بھی اِس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ اگر نریندر مودی اور بی جے پی اِس بار بھی کامیاب ہو گئے تو بھارتی مسلمانوں پر نئے سرے سے نئے عذاب نازل ہوں گے ۔لاریب مودی کی عوامی مقبولیت میں مذہبی کارڈ کے بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔
مثال کے طور پر : ایودھیا (اترپردیش) میں سابق تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ اربوں روپے کی لاگت سے وسیع رام مندر کا تعمیر کیا جانا مودی اور بی جے پی کا زبردست مذہبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ مودی ہی نے اِس مندر کا افتتاح کیا ۔ اِس تقریب کی بھارت بھر کے میڈیا میں بے پناہ تشہیر کی گئی ۔
اِس کا سیاسی و انتخابی فائدہ براہِ راست مودی اور ان کی پارٹی کو پہنچا ۔ مودی ہی کے دور میں دبئی میں عالمِ عرب کا سب سے بڑا مندر تعمیر کیا گیا۔ اِس کا افتتاح بھی نریندر مودی نے کیا ۔ اِس کی بھی وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں تشہیرکی گئی ۔ یوں مودی نے بھارتی مذہب پسند اکثریتی ہندووں کے دل موہ لیے ۔ وہ ان کا ہیرو بن چکا ہے ۔ نریندر مودی ہی کے اشارے پر بی جے پی کی ایک مرکزی ہندو خاتون وزیر( سمریتی ایرانی) نے مدینہ شریف کے مضافات کا دورہ کیا ۔اِس دورے نے بھارتی ووٹروں کو یہ پیغام دیا کہ مودی جی سعودی حکمرانوں کا اعتماد بھی رکھتے ہیں ۔ سمریتی ایرانی کے اِس دورے کا سیاسی فائدہ بھی مودی ہی کو پہنچا ۔
جوں جوں نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے دن قریب آ رہے ہیں، اسی تناسب سے بھارتی مسلمانوں کی سانسیں خشک ہو رہی ہیں۔ نریندر مودی اپنے کئی اقدامات کے کارن بھارتی جنتا کے ہیرو بن چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر :مودی کی وزارتِ عظمی کے دوسرے دور میں بھارت کامیابی کے ساتھ چاند پر پہنچا ہے اور یوں بھارت کو عالمی طاقتوں میں مزید نمایاں مقام ملا ہے۔ اِس کامیابی پر ہر بھارتی شہری نازاں ہے۔ پھر بھارتی جنتا مودی کو ووٹ کیوں نہ دیں؟ نریندر مودی جس حکمت اور سفارتی طاقت سے قطر میں قید اپنے8بحری افسروں کو باعزت طریقے سے رہا کروا کر واپس بھارت لائے ہیں، یہ بھی ان کی عظیم قومی خدمت کہی جارہی ہے ۔
مذکورہ افسروں کو حالانکہ جاسوسی کے سنگین الزامات میں سزائے موت ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی مودی انھیں قطری قید سے چھڑا لائے ۔یہ کامیابی بھارتیوں کا یہ باور کروانے کے لیے کافی ہے کہ نریندر مودی مشرقِ وسطی کے حکمرانوں میں بھی گہرا رسوخ رکھتے ہیں ۔21مارچ2024 کو نریندر مودی کے حکم اور سازش سے جس بے رحمی سے ایک جھوٹے مقدمے میں وزیراعلی دہلی، اروند کجریوال، کو گرفتار کرکے مودی نے اپنے راستے کی ایک بڑی دیوار کو مسمار کرنے کی کوشش کی ہے، اِس نے بھارت میں اپوزیشن کے لیے ایک نیا خوف پیدا کر دیا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ بھارت میں مودی جی کی مقبولیت و محبوبیت سے بھارت کی سبھی کمیونٹیز برابر مستفید ہوتیں ۔ بد قسمتی سے مگر مودی جی صرف بنیاد پرست ہندوؤں کے خیر خواہ بن کررہ گئے ہیں ۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر مودی جی کے دورِ حکومت میں کینیڈا، برطانیہ اور امریکا میں خالصتان کے حامی کئی سکھ رہنماوں کو تہ تیغ کر ڈالا گیا ۔ قتل کی اِن بہیمانہ وارداتوں کے الزامات مودی حکومت پر عائدکیے گئے ہیں ۔ مودی اور ان کے چاہنے والوں کو مگر کوئی پروا ہی نہیں ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس