ہم جج بننے سے پہلے آئین پر حلف لیتے ہیں، ہمارا کام آئین اورقانون بنانا نہیں ، ان کی تشریح کرنا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم جج بننے سے پہلے آئین پر حلف لیتے ہیں، ہمارا کام آئین اورقانون بنانا نہیں بلکہ ان کی تشریح کرنا ہے۔ آئین میں مسلم کی جوتعریف ہے اس پر توکسی کو اعتراض نہیں، کسی کو اعتراض ہے وہ سپریم کورٹ کے برابر والی عمارت پارلیمنٹ جائے ، اس کے لئے ترمیم ہو گی جو کہ پارلیمان کا مینڈیٹ ہے اور ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ دنیا میں سب سے بہتر اخلاق کس کا تھا، اُس کی نقل کرسکتے ہیں اُس تک پہنچ نہیں سکتے، یہ مسلمان کاعقیدہ ہے۔جبکہ عدالت نے مبارک احمد ثانی نظرثانی کیس میں درخواست گزاروں ، مذہبی جماعتوں اورمذہبی اداروں کو جواب جمع کروانے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیتے ہوئے قراردیا ہے کہ اس کے بعد کوئی رائے آئے گی تواسے زیر غور نہیں لایا جائے گا۔

عدالت جواب پڑھے گی پھر کیس سماعت کے لئے مقررکیا جائے گا۔ جبکہ عدالت نے کیس کے شکایت کندہ محمد حسن معاویہ کی نظرثانی درخواستوںپر پنجاب حکومت اور مدعا علیہ کو نوٹس جار ی کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مبارک احمد ثانی کیس پر نظرثانی کے حوالہ سے دائر 29درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت قائمقام امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنما،ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمد رضا گیلانی ، سینئر وکلاء سینیٹر کامران مرتضیٰ ، جسٹس (ر)شوکت عزیز صدیقی شیخ احسن الدین احمد،شیخ عثمان کریم الدین اوردیگر پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر گزشتہ سماعت کاحکمنامہ پڑھا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 10معروف مذہبی اداروں کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کیا گیا ان کا جواب موصول ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوجداری کیسز میں حکومت،شکایت کندہ اور ملزم نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں، کریمنل کیسز میں دیگر افراد کی جانب سے پارٹی بننے کا تصور رنہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فریقین تحریری صورت میں معروضات دیں ہم پڑھیں گے اورسمجھیں گے، قانون کی رہنمائی نہ دیں شاہدآئین ہم زیادہ جاتنے ہیں، شر یعت شاید زیادہ نہ جانتے ہوں، اس لئے علماء سے رہنمائی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا دنیا میں سب سے بہتر اخلاق کس کا تھا، اُس کی نقل کرسکتے ہیں اُس تک پہنچ نہیں سکتے، یہ مسلمان کاعقیدہ ہے، کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ہمیں پارٹی بنایا جائے اور کچھ نے رائے بھی دی ہے، سب کا جواب ہم پڑھی نہیں سکے اور چیزیں بھی ہو گئیں، ہفتہ دوہفتے وقت دے سکتے ہیں، عوامی رائے نہ دیں، شرعی رائے چاہیئے، قرآن، سنت اور فقہاء کی کتابوں کا حوالہ دے کرہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ پہلے ہم رائے لے لیتے ہیں اور پھر پارٹی بنالیں گے، مفتی تقی عثمانی عدالتی معاون مقررکرلیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کہ جماعت اسلامی کے وکیل جسٹس (ر)شوکت عزیز صدیقی روسٹرم پر آئیں۔ اس پر شوکت عزیز صدیقی کاکہنا تھا کہ سرکار مجھے جگہ دینے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات کے اپنے لوازمات ہیں۔ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ مبارک احمد ثانی کیس کے فیصلہ کے پیرا6سے10تک ہمارے تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی ہم میرٹ پر نہیں آئے ابھی ہم طریقہ کار پر بات کررہے ہیں، شوکت صدیقی خود بھی جج رہے ہیں ، فوجداری کیسز میں پارٹی بننے کا طریقہ ہے۔ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم نے پیرا6سے10تک بات کرنی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ تحریری معروضات نہیں دے گا ہم اسے نہیں سنیں گے، جوتحریری معروضات دینا چاہے دے دے اور جونہ دینا چاہے نہ دے ہم پارٹی نہیں بنائیں گے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ طریقہ کارکوریگولیٹ کرنا عدالت کا کام ہے۔ چیف جسٹس کا فریق بننے کی درخواست دینے والے مفتی محمد سعید خان بھٹہ ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا طریقہ کار سے اختلاف ہے جواب دے دیں، اگر تحریری دلائل دے دیئے ہیں توپھر آپ کو سنیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرآن شریف، سنت اورحدیث کا حوالہ دینا چاہیں دیں، شاید قانون ہم بہتر جانتے ہوں۔ ایک درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میری پارٹی بننے کی درخواست منظور ہو چکی ہے میں نے لارجر بینچ بنانے کی درخواست کی ہے۔ ایک اوردرخواست گزارکاکہنا تھا کہ میں پارٹی بننا چاہتاہوں یہ انسانی حقوق کامسئلہ ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو پارٹی ہوتا ہے وہ نظرثانی درخواست دائر کرسکتا ہے، ہم آئین اورقانون بدل نہیں سکتے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ ہم توخود کہہ رہے ہیں کہ ہماری رہنمائی کریں۔ سینئر وکیل شیخ احسن الدین احمد کا کہنا تھا کہ میں نے پارٹی بننے کی درخواست دی ہے ، ہمیں سنا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سنیں گے اورسوال بھی پوچھ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جواب جمع کروانے کے لئے دو، تین ہفتے یا ایک ماہ کا وقت دے دیں گے تاہم اس کے بعد ہم التوانہیں دیں گے۔ امیرعالمی تنظیم اہلسنت محمد افضل قادری کا کہنا تھا کہ ہم نے جواب جمع کروادیا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سمجھنے کے لئے سوال پوچھیں گے، بہت چیزیں ہیں انہیں سمجھنے کے لئے وقت چاہیئے۔ امیر انٹرنیشنل مووومنٹ پاکستان محمد الیاس چنیوٹی کا کہنا تھا کہ میں مزید جواب جمع کروانا چاہتاہوں کیا مجھے اجازت ہے۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ موسٹ ویلکم۔

ایک درخواست گزار افتخارالحسن شاہ کا پیش ہوکرکہنا تھا کہ ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقررکیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جو آنا چاہے خودآئے ہم نے اداروںکو بلایا ہے، کسی کو ہم نے روکا نہیں ہے، تحریری طور پر جواب جمع کروادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پہلے غلطی ہوئی تودوبارہ توغلطی نہ کروائیں ، کچھ رائے دوسرے دائرئوں میں چلی گئی، جوا س میں تھا نہیں۔ مرکزی مسلم لیگ کے سربراہ خالد مسعود سندھو ایڈووکیٹ ویڈیو لنک کے زریعہ لاہور رجسٹری سے پیش ہوئے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ویڈیو لنک سے یہ کیس نہیں سنیں گے، جس نے آنا ہے وہ زحمت کرکے اسلام آبادآجائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکو جواب جمع کروانے کاسب سے زیادہ حق ہے۔ ایک درخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سے سوال نہ پوچھیں ، آئین پڑھ لیں، ہم لاء کی کلاس نہیں کررہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جمعیت علماء اسلام (ف)والے کدھر ہیں، کامران مرتضیٰ سامنے آئیں، کچھ آئینی ترامیم کی بات ہورہی ہے اس حوالہ سے کچھ پتا ہے کہ نہیں۔سینیٹرکامران مرتضیٰ نے آئین کاآرٹیکل 260-3-Aاور260-3-Bپڑھ کرسنایا جس میں مسلم اورغیر مسلم کی تعریف دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 17ستمبر1974کو آئین میں ترمیم بھی آئی تھی اس کے خلاف ہم کوئی منفی کمنٹ نہیں سنیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسلم کی تعریف قرآن مجید کی کس آیت میں آتی ہے۔ اس پر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ علماء بہتر بتاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی توجماعت ہی مذہبی ہے۔ ڈاکٹر عمیر نے پیش ہوکربتایا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں حافظ القرآن نہیں ہوں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا ایک درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تلاوت نہ کریں آیت اورسورة نمبر بتادیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذرہ ترتیب ہوتی ہے، کچھ ہوتا ہے، ہر آدمی بول رہا ہے، آیت نہ پڑھیں صرف نمبر بتادیں، سمجھنے کی بات کرلیں، اتنی اہم چیز ہے ، ہر آدمی مائیک پکڑنے کی کوشش کررہا ہے، پرچی پر لکھ کردے دیں ہم نے معاملہ آگے بڑھانا ہے، اگر چاہتے ہیں کیس نہ چلائیں تونہ چلائیں۔ چیف جسٹس نے کامران مرتضیٰ کو ہدایت کی کہ اس معاملہ پر آئینی ترمیم کے وقت مرحوم مفتی محمود اور پروفیسر غفوراحمد نے اپنی تحریری رائے بھی دی تھی وہ پارلیمنٹ سے لے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جج بننے سے پہلے آئین پر حلف لیتے ہیں، ہمارا کام آئین اورقانون بنانا نہیں بلکہ ان کی تشریح کرنا ہے۔ کامران مرتضیٰ کاکہنا تھا کہ کوئی سوال فریم کردیں تاکہ ہم مناسب طریقہ سے معاونت کرسکیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ شاید ہم تحریری سوال دے دیں تاہم اس موقع پر اس پوزیشن میں نہیں کہ تحریری سوال دے سکیں۔ کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ جواب جمع کروانے کے لئے دوہفتے دے دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین میں مسلم کی جوتعریف ہے اس پر توکسی کو اعتراض نہیں، کسی کو اعتراض ہے وہ سپریم کورٹ کے برابر والی عمارت پارلیمنٹ جائے ، اس کے لئے ترمیم ہو گی جو کہ پارلیمان کا مینڈیٹ ہے اور ہمارا مینڈیٹ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سننے کے لئے تیار ہیں، اس کو ہم فیصلہ میں لکھیں گے ، نظرثانی کا مطلب ہے دوسری نظر ہورہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنی حدود میں رہنا چاہتے ہیں، اگر درخواست گزار نے انگریزی میں فیصلہ پڑھا ہے توشاید سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے دوبارہ فیصلہ پڑھ لیں، اگر ہم سے غلطی ہوئی ہے توہم اس کو درست کررہے ہیں۔

چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 26فروری کے حکم میں ہم نے 10اداروں سے معاونت طلب کی تھی اور جواب جمع کروانے کے لئے تین ہفتے کا وقت دیا تھا۔ بڑی تعداد میں اداروں اورافراد کی جانب سے پارٹی بننے کی درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ فوجداری معاملہ ہے اس میں شکایت کندہ، ریاست اور ملزم ہے تاہم کسی خاص نقطہ پر دیگر کو بھی فریق بنایا جاسکتا ہے۔ پارٹیاں نظرثانی درخواستیں جمع کرواسکتی ہیں، ہم نے معروف اداروں سے معاونت طلب کی ہے۔ جواب جمع کروانے کے لئے دوہفتے کا وقت دیا جارہا ہے اس کے بعد جمع کروائی گئی کوئی رائے زیر غور نہیں لائی جائے گی، اگرکوئی سوال اٹھا تووہ پہلے بھی بھجوایا جاسکتا ہے اور دوران سماعت بھی پوچھا جاسکتا ہے اور پھر میرٹ پر کیس سنیں گے۔عدالت نے درخواست گزار کی نظرثانی درخواست پر حکومت پنجاب اور مدعا علیہ کے وکیل کو نوٹس جاری کردیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔