سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو ممکنہ رہائی پانے والے 15سے20ملزمان کے حوالہ سے محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیدی

اسلام آباد(صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ 9مئی2023کے ممکنہ رہائی پانے والے 15سے20ملزمان کے حوالہ سے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔ان ملزمان کو 13ماہ تک قید کی سزا ہو گی جس میں سے تین ماہ کی سزا معافی دے کر انہیں رہا کردیا جائے گا۔جبکہ عدالت نے زیادہ سزا پانے والے دیگر ملزمان کے حوالہ سے فیصلے جاری نہ کرنے کے حوالہ سے حکم امتناع برقراررکھا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر رہا ہونے والوں اور تین سال تک سزا پانے والوں کی فہرست فراہم کریں۔

عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے دائر تین نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی اجازت دے دی۔جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ رہا ہوجائیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے کہا ہے کہ سزاکااعلان نہیں ہواتومعطل کیسے ہوجائے گی۔ تھوڑا نظرثانی کروالیں ، تھوڑا سابراڈ سپیکٹرم میں چیک کر لیں اورلوگ بھی ہوسکتے ہیں توان کو شامل کرلیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کردی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خا ن پر مشتمل 6رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ کے خلاف دائر 54 انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ انہیں موصول ہدایات کے مطابق15سے 20 افراد ایسے ہیں جنکی عید الفطر سے قبل رہائی ہو سکتی ہے اوروہ گھر بھجوائے جاسکتے ہیں، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دیکر رہا کیا جائے گا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دیدی جائے گی، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، جن کی رہائی کیلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا ، دوسرا اسکی توثیق ہوگی، تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا۔عدالتی معاون بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ یہ مایوس کن صورتحال ہے۔

جسٹس امین الدین خان کا اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مزید ملزمان کے حوالہ سے بھی کام کریں۔اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ حکم کردیں اور عید سے قبل یہ پراسیس مکمل کرنے دیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی، ہم جنرل آرڈر کریں گے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ جنہیں رہا کرنا ہے انکے نام وغیرہ بتا دیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ میں بتائوں گا جب آرڈر ہوجائے گا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ یہ ایکسرسائز عید سے پہلے ہوجانی چاہیئے تاکہ تاکہ چھوٹنے والے عید سے پہلے گھروں کو جائیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا کہ جو رہا ہوسکتے ہیں ہم ان کے حوالہ سے حکم دے دیتے ہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر کااٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تھوڑا نظرثانی کروالیں ، تھوڑا سابراڈ سپیکٹرم میں چیک کر لیں اورلوگ بھی ہوسکتے ہیں توان کو شامل کرلیں۔

دوران سماعت عدالتی معاون فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ 103یا105افراد کم سزا والے ہی ہیں اور ان کی سزا تین سال سے کم ہے، عدالت سزا معطل کردے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت والے تو 14سال سے کم سزادیتے ہی نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ رہا ہوجائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کررہے ہیں اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 6اور7کے تحت ٹرائل نہیں کررہے۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ ہم کیوں نہ ایپلٹ فورم پر بیٹھ کرسزامعطل کردیں، یہ فوجداری ٹرائل کی کاروائی نہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ضمانت کی شق موجود نہیں۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ ہم دفعہ497میں کیوں نہ جائیں اورکیوں اس دفعہ کااستعمال نہ کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ انٹراکورٹ اپیل میں فیصلہ معطل ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ پہلے فیصلہ کردیں پھردفعہ 426میں آسکتے ہیں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کرنل اور میجر نے ٹرائل کیا ہے اور جس نے کنفرمیشن دینی ہے اس نے مقدمہ سنا ہی نہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے ایف آئی آردیکھی ہے وہ ریکارڈ پر ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سزاکااعلان نہیں ہواتومعطل کیسے ہوجائے گی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا سب کیسز میں ٹرائل مکمل ہو چکا ہے۔ مدعا علیحان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت اٹارنی جنرل کو ہدایت کرے کہ وہ آئندہ سماعت پر 3سال سے کم سزاولوں کی فہرست دیں۔ جسٹس امین الدین خان کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پہلے 103افراد فوج کی تحویل میں تھے اور اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ دومزید افراد بھی شامل کیئے گئے ہیں جس کے بعد تعداد 105ہو گئی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ عیدالفطر 9یا10اپریل کو ہو گی اور اس سے پہلے 15سے20افرادکو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ پہلے ہی چھوڑ دیجیئے گا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی، فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر رہا ہونے والوں اور تین سال تک سزا پانے والوں کی فہرست فراہم کریں۔ سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور کر لی۔ کے پی حکومت نے سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

کے پی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سید کوثر علی شاہ نے پیش ہو کربتایا کہ انہوں نے اپیلیں واپس لینے کے حوالہ سے باقائدہ درخواست دائر کردی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کمرہ عدالت میں موجود ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کیوں روسٹرم پر نہیں آرہے، کیا انہیں یقین نہیں کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔اس پر شاہ فیصل اتمانخیل روسٹرم پر آگے اور بینچ کو بتایا کہ وہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کی جانب سے پیش ہوتے رہے ہیں ۔ اس پر جسٹس سید حسن رضوی کا کہنا تھاکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وکلاء کو اجازت دی جارہی ہے۔ شاہ فیصل اتمانخیل کا کہنا تھا کہ میں دفاع کی جانب سے پیش ہوا ہوں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کردی۔عدالت نے قراردیا کہ دیگر کیسز میں آرڈر جاری نہیں کیا جائے گا۔