اشرافیہ کا اسکول : تحریر مزمل سہروردی


ایچی سن اسکول و کالج کے پرنسپل کے استعفی نے پورے میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ میرے ان دوستوں کو جنھیں موجودہ حکومت کا کوئی اسکینڈل نہیں ملا ہے، ان کی چاندی ہو گئی ہے بقول ان دوستوں کے یہ اس حکومت کا پہلا سب سے بڑا اسکینڈل ہے۔

گورے پرنسپل نے گورنر پنجاب کی جانب سے اسکول کے معاملات میں مداخلت کو وجہ بنا کر اپنا استعفی پیش کیا ہے۔معاملہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر احد چیمہ کے دو بچوں کی فیس معافی کا تنازعہ ہے جس کی وجہ سے پرنسپل نے استعفی دے دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جب احد چیمہ گرفتار تھے تو ان کی اہلیہ جو خود بھی ایک سرکاری افسر ہیں کو اسلام آباد ٹرانسفرکر دیا گیا تھا۔یوں ان کے بچے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور انھوں نے ایچی سن سے لمبی چھٹی لے لی۔
احد چیمہ جیل سے رہا ہوچکے ہیں جب کہ ان کی اہلیہ کی واپس لاہور ٹرانسفر ہو گئی ہے لہذا انھوں نے بچوں کو واپس ایچی سن میں داخل کرانے کے لیے رجوع کیا۔ بچے دو سال وہاں نہیں پڑھے لیکن ایچیسن انتظامیہ نے ان دو سالوں کی فیس بھی مانگ لی۔ احد چیمہ کی اہلیہ نے ان دو سالوں جب ان کے بچوں نے ایچی سن میں پڑھائی نہیں کی۔

ان دو سالوں کی فیس معافی کی درخواست کی، گورے پرنسپل نے فیصلہ دیا کہ فیس تو دینی پڑے گی ، چاہے بچوں نے اسکول آکر پڑھا ہے یا نہیں۔ یہ معاملہ گورنر پنجاب تک گیا، گورنر نے فیصلہ دیا کہ جب پڑھا نہیں تو فیس کیوں دی جائے۔ گورے پرنسپل کو فیس معافی کا یہ فیصلہ اسکول کے معاملات میں سیاسی و حکومتی مداخلت لگا لہذا انھوں نے استعفی دے دیا۔ یوں موجودہ حکومت کا پہلا بڑا اسکینڈل معرض وجود میں آگیا۔ دوستوں نے خوب شور مچایا۔ لیکن میری اس بارے میں رائے مختلف ہے۔ جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تو حقائق بتاتے ہیں کہ شاید آج تک کبھی کسی نے ایچی سن میں فیس معافی کی درخواست ہی نہیں دی اس لیے وہاں فیس معافی کا کوئی رواج اور قانون ہی موجود نہیں۔ بیچارے ا حد چیمہ پہلے والدین ہیں جنھوں نے بچوں کی فیس معافی کی د رخواست دی ہے۔ یہ اسکول 1886 میں انگریز کے ہندوستان پر قبضہ کے بعد بنایا گیا۔ اس کا پہلا نام پنجاب چیفس کالج رکھا گیا اور وائسرے ہند نے اس کا افتتاح کیا۔

یہ پہلے دن سے ہی انگریز راج سے وابستہ اشرافیہ کا اسکول تھا۔ اس میں عام آدمی کے بچوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد اور قیام پاکستان کے بعد بھی آج تک یہ اشرافیہ کا ہی اسکول ہے۔ یہاں مڈل کلاس اور عام شہریوں کے بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا ۔ چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو۔

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایچی سن میں اشرافیہ کے بچوں کو اکٹھے رکھ کر ایک اشرافیہ کی ایک مخصوص کلاس تیار کی جاتی ہے۔ اس لیے ملک میں ایچی سن کلب موجود ہے۔ یہاں سے پڑھنے والے بعدازاں بھی اس کلب کو قائم رکھتے ہیں۔یہ پاکستان پر حکمرانی کا ایک کلب ہے۔ ہماری اسمبلیوں میں ایچی سن کلب کے ممبران کی اکثریت ہے۔

ایچی سن سے آج تک کوئی بڑا سائنسدان نہیں نکلا، کوئی بڑا ریفارمر نہیں نکلا۔ حکمران، نواب ،جاگیردار اور بڑے صنعتکاروں کی اولاد ہونا ہی اس درسگاہ کا میرٹ ہے۔ یہ اسکول پولیٹکل سائنس کی اس پرانی تھیوری پر قائم ہے جس کے مطابق اشرافیہ کے بچوں کی پرورش کے لیے الگ اسکول اور تربیت گاہیں بنانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ انھیں حکمرانی کے لیے تیار کیا جانا ہوتا ہے۔

اس اسکول میں داخلے کے وقت بچے سے زیادہ والدین کا حسب نسب، وہ کہاں سے پڑھے ہیں اور ان کی مالی حیثیت دیکھی جاتی ہے۔ جن کے پاس نئی نئی دولت آئی ہوتی ہے یا جو نئے نئے حکمران کلب اشرافیہ میں شمار ہونے لگتے ہیں، ان کی بھی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں یا ان کی اگلی نسل کو ایچی سن میں داخل کروا لیں۔ لیکن ان کو یہ ثابت کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں کہ وہ اب اشرافیہ کلب کے رکن بن چکے ہیں ۔ میں نے آج تک کسی غریب اور مڈل کلاس کے بچے کو وہاں پڑھتے نہیں دیکھا۔ اس لیے ڈیر ھ سو سال میں وہاں فیس معافی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہاں لاکھوں روپے فیس ہے لیکن سب خوشی سے اور ہنس کر دیتے ہیں۔

اشرافیہ کے یہ اصول ڈیڑھ سو سال پہلے تب بنائے گئے تھے جب حق حکمرانی صرف انگریز دربار کی اشرافیہ کو ہی حاصل تھا۔قیام پاکستان کے بعد بیور وکریٹس کے بچوں کو بھی داخلہ دینے کی روا یت شروع ہے۔کیونکہ ایچی سن کی فلاسفی میں اہم بیوروکریٹس کو بھی اشرافیہ میں شامل کر لیا جاتا ہے، لیکن مڈل کلاس کا بچہ کتنا بھی لائق کیوں نہ ہو، وہ وہاں نہیں پڑھ سکتا۔

ایک جمہوری ملک میں جہاں حق حکمرانی عام آدمی کے پاس ہونا چاہیے، وہاں نوآبادیات کی باقیات تعلیمی اداروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد یکساں نظا م تعلیم پر ہونی چاہیے۔ امیر و غریب کے لیے یکساں تعلیمی نصاب ، یونفارم اور سہولیات ہونی چاہیے۔ امیر اور غریب کے بچوں کو ایک جیسے اسکولوں میں پڑھنا چاہیے۔ جمہوریت میں اشرافیہ کے الگ اسکولز کا کوئی اصول نہیں ہو سکتا۔

ایسی درسگاہیں جمہوری فلسفے کی نفی ہیں۔ ان کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں ہے اور اشرافیہ نے اپنے لیے الگ تعلیمی نظام و نصاب بنا کر آج بھی حق حکمرانی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، رولنگ ایلیٹ نے اپنے بچوں کو عام پاکستانی شہریوں کے بچوں سے دور رکھنے کا بندو بست کیا ہوا ہے۔ ان اسکولوں کے بچوں کی دوستیاں بھی ایلیٹ طبقے تک محدود ہیں۔ اس لیے یہ بڑے ہو کر بھی عام پاکستانی کو جاہل اور غیرمہذب سمجھتے ہیں۔

ایچی سن اور اس جیسے دیگر ادارے طبقاتی تقسیم کو کم نہیں بلکہ گہرا کرنے کا سبب ہیں۔ان اداروں کے بچے ہمارے تعلیمی نظام میں آگے کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ یہ سب امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ وہاں ایسی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ جن کی پاکستان میں کوئی اہمیت افادیت اور ضرورت نہیں ہوتی۔

ایچی سن کے وسیع و عریض رقبے میں کئی مزید اسکول بن سکتے ہیں، اس لیے میرے نزدیک یہ کوئی اسکینڈل نہیں ہے بلکہ اشرافیہ کی اپنی لڑائی ہے۔ عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس