وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے پنجاب کے طلبا کے لیے بیس ہزار بائیکس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں کہ ان بیس ہزار بائیکس میں سے انیس ہزار بائیکس پٹرول جب کہ ایک ہزار بائیکس الیکٹرک ہونگی۔پنجاب بینک نے حکومت پنجاب کا یہ منصوبہ فنڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں یہ بائیکس لینے کے لیے طلبا کو سود سے پاک قرض دیے جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک اچھا منصوبہ ہے۔ جیسے پنجاب کے طلبا کو لیپ ٹاپ دیے گئے تھے ویسے ہی بائیکس دینا بھی ایک اچھا منصوبہ ہے۔ آج کل کے دور میں طلبا کا اپنے تعلیمی اداروں میں جانا ایک مشکل اور مہنگا کام ہو گیا ہے۔ اس لیے جیسے تعلیم اہم ہے ویسے ہی تعلیمی ادارے تک پہنچنا بھی اہم ہے۔ اگر پہنچنا مشکل اور مہنگا ہو گا تب تعلیم کا جاری رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے بائیکس کے اس منصوبے کے اعلان کے بعد مجھے جماعت اسلامی سے وقاص بٹ صاحب کا ایک خط موصول ہوا ہے۔ اس خط میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں جب کہ کچھ باتوں کے بارے میں ذاتی طور پر متفق نہیں ہوں۔ لیکن پہلے ہم وقاص بٹ صاحب کا خط پڑھ لیتے ہیں۔ پھر اس پر بات بھی کر لیں گے۔
السلام علیکم و رحم اللہ و برکاتہ
پنجاب حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک بائیکس کو فروغ دینے کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں اور ان الیکٹرک بائیکس کی طلبہ و طالبات کو بلاسود آسان اقساط پر فراہمی بھی ایک قابلِ ستائش عمل ہے لیکن اس پروگرام میں مندرجہ ذیل کچھ خرابیاں ہیں، جن کی بروقت اصلاح کی ضرورت ہے:
(1) طالبات کے استعمال کے لیے صرف الیکٹرک اسکوٹرز ہی مناسب اور موزوں ہیں- پٹرول پر چلنے والی موٹر سائیکلز یا موٹر سائیکل کے ڈیزائن پر تیار کی گئی الیکٹرک بائیکس پر خواتین یا طالبات کا بیٹھنا انتہائی مشکل، نامناسب، معیوب اور پریشانی کا باعث ہے۔ طالبات کے لیے یہ بھی انتہائی مشکل اور پریشانی کا باعث ہے کہ وہ بطور صنفِ نازک کک (Kick) لگا کر پٹرول موٹر سائیکل اسٹارٹ کریں، پٹرول بائیکس میں پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول اسٹیشنز پر لگی بائیکرز مردوں کی لمبی قطاروں میں لگیں اور انجن آئیل کی تبدیلی کے لیے روایتی ورکشاپس پر جائیں۔ ان حقائق کے پیشِ نظر آپ سے استدعا ہے کہ 20,000 بائیکس کی بلاسود اقساط پر فراہمی کے اس پروگرام میں طالبات کے لیے ان کی آبادی کے تناسب سے کم از کم 10,000 الیکٹرک اسکوٹرز کا کوٹہ مختص کیا جائے اور اس مجوزہ کوٹہ کو 31 دسمبر 2024 تک برقرار رکھا جائے۔
(2) اس پروگرام کی میڈیا پر دی گئی ابتدائی تفصیلات کے مطابق کل 20,000 موٹر سائیکلوں کی طلبہ کو بلاسود آسان اقساط پر فراہمی کے اس پروگرام میں 19,000 ریگولر بائیکس (پٹرول موٹر سائیکل) ہوں گی۔ اتنے بڑے پیمانے پر پٹرول بائیکس کی طلبہ و طالبات کو فراہمی ماحولیاتی آلودگی اور صوتی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔ پٹرول بائیکس کو چلانے کا خرچ کم از کم 6 روپے فی کلومیٹر ہے جب کہ
الیکٹرک بائیک کو چلانے کا خرچ صرف 1 روپے فی کلومیٹر ہے۔ پٹرول کی امپورٹ پر خرچ ہونے والے غیرملکی زرمبادلہ (Foreign Exchange) کی پاکستان میں پہلے ہی شدید کمی ہے جب کہ الیکٹرک بائیک کو گھروں میں لگے سولر سسٹم سے مفت بھی چارج کیا جا سکتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس پروگرام کے تحت طلبہ و طالبات کو صرف الیکٹرک بائیکس ہی بلاسود آسان اقساط پر فراہم کی جائیں، جن میں سے 50 فیصد کوٹہ صرف خواتین یا طالبات کے لیے ہو اور انھیں موٹر سائیکل ڈیزائن کی الیکٹرک بائیکس کے بجائے الیکٹرک اسکوٹرز فراہم کیے جائیں-
(3) یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اب پاکستان میں جدید گرفین بیٹری ٹیکنالوجی کے ساتھ ایسے الیکٹرک اسکوٹر دستیاب ہیں، جن کی رینج 140 کلومیٹر فی چارج تک ہے اور گرفین بیٹری کے الیکٹرک اسکوٹرز 18 مہینے کی وارنٹی کے ساتھ 189,000 روپے سے لے کر 270,000 روپے تک کی قیمت میں دستیاب ہیں۔ اس لیے صرف لیتھیئم بیٹریوں والی مہنگی الیکٹرک بائیکس کی ہی منظوری دینے کے بجائے گرفین بیٹریوں والی سستی الیکٹرک بائیکس اور الیکٹرک اسکوٹرز کی فراہمی کے لیے منظوری دی جائے۔ امید ہے کہ آپ مندرجہ بالا گزارشات پر غور فرما کر مجوزہ اصلاحات کو منظوری کے لیے متعلقہ اتھارٹیز تک پہنچائیں گے۔
والسلام
وقاص احمد بٹ
میں وقاص بٹ صاحب کی الیکٹرک بائیکس والی بات سے بالکل متفق ہوں۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ طلبا کو الیکٹرک بائیک ہی دینی چاہیے۔ میں ان کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ لڑکیوں کا کوٹہ پچاس فیصد ہونا چاہیے۔ ویسے تو ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں اب لڑکیوں کی تعدا د پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ اس لیے جب ان کی اعلی تعلیمی اداروں میں تعداد زیادہ ہے تو ان کا کوٹہ بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک الیکٹرک بائیکس کے تکنیکی معاملات پر وقاص بٹ صاحب نے دلائل دیے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر میں نہ ہی تبصرہ کروں تو بہتر ہے۔ زیادہ ماہر لوگ موجود ہیں۔ وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن میں وقاص بٹ صاحب کی اس بات سے متفق نہیں کہ لڑکیاں عام پٹرول بائیک کو کک نہیں لگا سکتیں۔ یا ان کے لیے اس میں پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول پمپ جانا کوئی مسئلہ ہے۔ وہ اب کک لگانا بھی جانتی ہیں اور پٹرول بھی ڈلوا سکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی میں الیکٹرک بائیک سب کو دینے کے حق میں ہوں۔
اچھی بات یہ ہے کہ وقاص بٹ صاحب کو لڑکیوں کے بائیک چلانے پر اعتراض نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وقاص بٹ صاحب ان کو ان کا برابر حصہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم آجکل لڑکیوں کو سکوٹیز چلاتے سڑکوں پر دیکھتے ہیں۔ ویسے تو لڑکیاں اب عام بائیکس بھی چلا رہی ہیں۔ لیکن اس کلچر کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وقاص بٹ صاحب کی اس دلیل کوبھی کمزور دلیل سمجھتا ہوں کہ معمول کی پٹرول بائیک میں لڑکیوں کو بیٹھنے یا چلانے میں کوئی مسئلہ ہے۔ یہ فرسودہ باتیں ہیں اب معاشرے کو اس سے آگے نکل آنا چاہیے۔ لیکن پھر میں کہوں گا کہ الیکٹرک بائیک کے میں حق میں ہوں۔ پنجاب میں ماحولیات اک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں آہستہ آہستہ پٹرول بائیکس ختم کرکے الیکٹرک بائیکس کی طرف جانا ہوگا۔
حکومت پنجاب کو ایسے خطوط پر پالیسی بنانی چاہیے کہ بڑے شہروں میں پٹرول بائیکس پر پابندی لگائی جا سکے اور صرف الیکٹرک بائیکس ہی بڑے شہروں بالخصوص لاہور میں چل سکیں۔ اس سے لاہور کے ماحول کو پاک اور آلودگی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر ہم پہلے مرحلے میں لاہور کے لیے الیکٹرک بائیکس کی ڈیڈ لائن رکھیں، چاہے تین سال کی ہی کیوں نہ ہو ۔ تو پھر لوگوں کا رجحان الیکٹرک بائک کی طرف ہوگا اور صنعتی ادارے بھی اسے بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس