وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹیم میدان میں اتار دی ہے۔اس حوالے سے ایک عمومی اندازہ تو سب کو تھا تاہم میں سمجھتا ہوں، اس ٹیم میں سب سے مشکل کام عطا تارڑ کا ہے جنھیں وزارت اطلاعات کا قلمدان دیا گیا ہے۔
علیم خان کے پاس نجکاری کی وزارت ہے، وہ بھی بہت اہم ہے۔ مصدق ملک کی پاور اور پٹرولیم کی وزارت بھی کم اہم نہیں۔ لیکن اس وقت سب سے مشکل محاذ اطلاعات کا ہی ہے، اصل جنگ اسی محاذ پر لڑی جانی ہے۔
پاکستان میں اس وقت بیانیوں کی جنگ جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) ابھی تک سوشل میڈیا اور بیانیہ بنانے کے محاذ میں پیچھے ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس محاذ پر محنت نہیں کی گئی ہے لیکن وہ ابھی تحریک انصاف کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
تحریک انصاف کو سوشل میڈیا پر برتری حاصل ہے۔ جس کے لیے عطا تار ڑ کو ایک مربوط حکمت عملی کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ اس محاذ پر حکومت پاکستان بھی کمزور ہے، حکومت پاکستان کی کمزوری کو ریاست کی کمزوری بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہم سوشل میڈیا کے محاذ پر ریاست پاکستان کو بھی کمزور دیکھتے ہیں۔
ریاستی اداروں کے خلاف مہم بھی اسی لڑائی میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ فیک نیوز اور آزادی اظہار کا مقابلہ بھی عطا تار ڑ کے لیے اہم ہوگا۔ جہاں انھیں آزادی اظہار کو قائم رکھنا ہے، وہاں ریاست پاکستان اس طرح فیک نیوز کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی۔
جھوٹ اور سچ کی اس لڑائی میں عطا تارڑ نے آگ اور خون کے دریا عبور کرنے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فیک نیوز کی پکڑ میں آنے والے صحافی بھی آزادی اظہار کے سائے تلے پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے عطا تاڑر کو صحافیوں کی تنظیموں اور میڈیا کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر فیک نیوز کے سدباب کے راستے تلاش کرنا ہوںگے۔
میں سمجھتا ہوں فیک نیوز پر کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا جیسا چل رہا ہے، ویسے چل نہیں سکتا۔ میں سوشل میڈیا کے حق میں ہوں۔ لیکن ویوز اور لائکس کے چکر میں یا کسی مخصوص گروہ کا آلہ کار بن کر فیک نیوز پھیلانے والوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فیک نیوز اور آزادی اظہار دو الگ الگ باتیں ہیں۔ عطا کو میڈیا کے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا راستہ تلاش کرنا ہوگا، یہ عطا تاڑر کا ایک بڑا متحان ہوگا۔
عطا تارڑ ایسے نوجوان سیاستدان ہیں جنھوں نے اپنی محنت سے راستہ بنایا ہے۔ ان کے وزیر بننے پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انھیں یہ وزارت کسی پرچی پر ملی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ عطا تارڑ کے بارے میں میری جس سے بھی بات ہوئی، ا س نے یہی کہا کہ انھیں وزیر بننا چاہیے، وزارت ان کا حق ہے۔ وہ چور دروازے یا موروثی سیاست نہیں بلکہ کارکن سیاست سے آگے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں سب ان کے کام کی قدر کرتے ہیں۔
عطا تاڑر نے میڈیا کے محاذ پر بھی اپنی جماعت کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ہم نے ان کو ٹاک شوز میں دیکھا ہے، وہ مشکل سے مشکل ٹاک شو میں جاتے ہیں۔ انھیں میڈیا کو ڈیل کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ لیکن وہ اختلاف بھی تہذیب کے دائرے میں کرتے ہیں۔
وہ اپنے سیاسی مخالفین کی بھی تذلیل کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ میں سمجھتا ہوں وہ ایک میڈیا دوست وزیر اطلاعات ہوںگے۔ میں سمجھتا ہوں عطا تارڑ کو موجودہ حکومت کا مثبت امیج سامنے لانا ہے جو ایک مشکل ٹاسک ہے۔ میڈیا کے محاذ پر اس حکومت کے منفی امیج کو نہ صرف ختم کرنا ہے بلکہ اس کو مثبت امیج میں بھی تبدیل کرنا ہے۔
میں سمجھتاہوں شہباز شریف نے اتحادی حکومت میں جو مثبت کام کیے وہ عوام تک نہیں پہنچ پائے، اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ عطا تارڑ کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف کام اور بس کام پر یقین رکھتے ہیں۔اس لیے جن دوستوں کو یہ شکایات رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) رابطے میں اچھی نہیں، شاید اب یہ گلے شکوے دور ہو جائیں گے۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں گالم گلوچ کی سیاست عروج پر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے عطا تاڑ کارکن صحافیوں کو بیروزگار نہیں بلکہ انھیں نوکریاں دلوانے والوں میں شامل ہوں گی ، اس کی وجہ سے کبھی کسی کی نوکری جائے گی نہیں۔
عطا تاڑ ر کو سب سے بڑا مقابلہ جھوٹ اور جھوٹ بنانے والی فیکٹریوں سے ہے۔ انھوں نے سچ کو اتنا مضبوط کرنا ہے کہ جھوٹ کو شکست ہو جائے۔ ابھی تک ہمیں جھوٹ کا غلبہ نظر آرہا ہے جو خطرناک ہے۔ ریاستی اداروں کی ساکھ پر روز حملے ہو رہے ہیں۔
عطا تاڑر پر بطور وزیر اطلاعات ریاستی اداروں کا تحفظ بھی ذمے داری ہے۔ میری اور آپ کی عزت بھی اب اس سوشل میڈیا کی وجہ سے محفوط نہیں ہے، اس کا راستہ بھی روکنا ہے، یہ سب کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مجھے امیدہے کہ وہ یہ کام کر سکیں گے۔ انھیں شہباز شریف کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ انھیں ایک بڑی ذمے داری دی گئی ہے۔ انھیں اس کو پورا کرنے کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔ ہم سب کو ان سے بہت امیدیں ہیں۔ امید ہے کہ وہ ان سب امیدوں پر پورا اتریں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس