آصفہ کو خاتونِ اول بنانے کا عمدہ فیصلہ … تحریر : نصرت جاوید


پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عام انسانوں کی بے پناہ اکثریت اپنے حکمرانوں سے اکتاچکی ہے۔ مذکورہ اکتاہٹ کے برجستہ اور مسلسل اظہار کیلئے ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم بھی میسر ہیں۔اس کے علاوہ نیٹ فلیکس جیسی سٹریم سروسز کی بدولت ہمیں ایسی فلمیں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں جو برطانیہ جیسے ملکوں کے شاہی خاندان پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔ اس کے علاو ہاؤس آف کارڈز نامی سیریز نے امریکی صدر کے وائٹ ہاؤس کو ایسی جگہ بناکر پیش کیا جہاں زیادہ سے زیادہ اختیار کے حصول کی خاطر امریکی صدر اپنے گرد ایسے چمچے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے جو سازشوں کے اطلاق کے لئے سنگین جرائم کے عادی افراد والے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
فرد کی ریاست سے مسلسل بڑھتی بیگانگی اور کافی حد تک نفرت کے باوجود یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ریاست اور اس کی طاقت کے اظہار کے تمام ادارے اب بھی اپنی جگہ پوری قوت سے قائم ودائم ہیں۔ہم فقط سوشل میڈیا پر ریاست اور اس کے اہم عہدوں پر فائز ہوئے افراد کے بارے میں طنزیہ فقروں یا ٹک ٹاک کی بدولت بنائی وڈیوز سے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ریاست کے تام جھام کو ہماری یاوہ گوئی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مذکورہ بالا حقیقت کے اعتراف کے بعدیہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا نے ہماری توجہ تاریخ سے بھی قطعا ہٹادی ہے۔اکثر واقعات کوہم تاریخ میں پہلی بار ٹھہرانے کو فورا رضا مند ہوجاتے ہیں۔تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس عادتِ بد کا مجھے آصف علی زرداری کی تقریب حلف برداری کے بعد بہت شدت سے احساس ہورہا ہے۔
اتوار کی شام شروع ہوتے ہی ایوانِ صدر سے لوٹ کر میں نے تھوڑی دیر کو سوشل میڈیا دیکھا تو وہاں دہائی مچائی جارہی تھی کہ آصف علی زرداری نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آصفہ بھٹو زرداری کو فرسٹ لیڈی یا خاتون اول مقرر کردیا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کے باعث لوگ مذکورہ اقدام کو سراہنا یا اس کی بھد اڑانا شروع ہوگئے۔ دونوں جانب کے افراد مگر ایک نکتے پر متفق نظر آئے اور وہ یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی صدر نے اپنی دختر کو خاتون اول ٹھہرادیا ہے۔ کاش تاریخ بنانے سے قبل دونوں جانب کے فریقین نے انکل گوگل ہی سے رجوع کرلیا ہوتا۔
گوگل سے رجوع کئے بغیر البتہ مجھے بطور صحافی فورا یاد آگیا کہ 1960 کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی بطورصدرِ پاکستان اپنی دختر بیگم نسیم اورنگ زیب صاحبہ کو خاتون اول تعینات کیے رکھا تھا۔ بیگم صاحبہ نہایت باوقار اور حسین خاتون تھیں۔ سوات کے پرنس اورنگزیب ان کے شوہر تھے جو کسی زمانے میں ایوب خان کے اے-ڈی-سی بھی رہ چکے تھے۔
1960 کی دہائی میں پاکستان امریکہ کے قریب ترین حلیفوں میں شامل تھا۔ اسی باعث ایوب خان بطور صدرِ پاکستان دو سے زیادہ بار امریکہ کے سرکاری دورے پر مدعو کئے گئے تھے۔ دونوں مرتبہ بیگم نسیم اورنگزیب ان کے ہمراہ تھیں۔امریکی دورے کے دوران ہی ایوب خان نے ان دنوں کے امریکی صدر جان کنیڈی کے ساتھ ذاتی مراسم استوار کئے۔اسی باعث امریکی صدر کی اہلیہ جیکو لین کنیڈی بھی بطور خاتون اول پاکستان کے دورے پر آئی تھیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ بھی ہمارے ہا ں ایک طویل دورے کے لئے 1960 کی دہائی ہی میں مدعو ہوئی تھیں۔ غیر ملکی سربراہان مملکت کے ان تمام دوروں کے دوران بیگم نسیم اورنگزیب بہت اہتمام اور تیاری کے ساتھ خاتون اول کی حیثیت میں ایوب خان کے ہمراہ موجود ہوتیں۔ وزارت خارجہ کے کئی پرانے افسروں نے مجھے ان کے غیر ملکیوں کیساتھ باوقار کھ رکھاؤ کی داستانیں سنائی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود 1962 میں چین-بھارت جنگ کے بعد امریکی صدر کنیڈی نے سوویت یونین کے ساتھ بھارت کے گہرے مراسم کو بھلاتے ہوئے اس ملک کو امریکی کیمپ میں لانے کی کوششیں شروع کردیں۔بھارت کنیڈی کے ہاتھ نہیں آیا لیکن کنیڈی نے بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لئے جو اقدامات لئے تھے وہ واجپائی حکومت کے بعد سے ہر بھارتی سرکار کے بہت کام آئے۔ ان دنوں کی مودی سرکار بھی چین کے اثر کو محدود تر کرنے کے لئے امریکہ کی جانب سے لئے ہر قدم میں برابر کی شریک ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کو امریکی بے اعتنائی کا احساس مگر 1965 کی پاک-بھارت جنگ کی وجہ سے ہونا شروع ہوگیا تھا۔اسی وجہ سے موصوف نے الطاف گوہر سے جس رزق سے آتی ہو کے عنوان سے اپنی آپ بیتی لکھوائی تھی۔ مجھے اگرچہ مذکورہ کتاب کا انگریزی عنوان زیادہ پسند آیا تھا جو غلام نہیں-دوست کی تمنا کا اظہار تھا۔
بہرحال عرض فقط یہ کرنا ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری پاکستان کی وہ پہلی دختر نہیں جنہیں ان کے صدر ہوئے والد نے خاتون اول مقرر کیا ہے۔ یہ واقعہ صدر ایوب خان کے دور میں بھی ہوچکا ہے۔صدر زرداری کی جانب سے لیا یہ فیصلہ اس لئے بھی قابل فہم ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ تنہا زندگی بسرکررہے ہیں۔ ایسے میں غیر ملکی سربراہان کے ساتھ رشتے استوار کرنے کے لئے آصفہ بھٹو زرداری کا انتخاب ایک عمدہ فیصلہ ہے۔آصفہ کتابوں کی رسیا بتائی جاتی ہیں۔وہ ماحولیات اور جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کے حوالے سے دنیا بھر میں ابھرتے جذبات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں کے دوران وہ ان دونوں موضوعات کے تناظر میں اہم افراد کو ہمارے ہاں ماحولیات کے حوالے سے ابھرتے سنگین مسائل کا حل ڈھونڈنے کو مائل کرسکتی ہیں۔
اپنی والدہ کی تقریبا فوٹو کاپی نظر آتی آصفہ بھٹو زرداری سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں۔ خاتون اول کی حیثیت میں وہ سوشل میڈیا کی بدولت پاکستان میں بے موسمی بارشوں کی وجہ سے مسلسل نمایاں ہورہے ماحولیات سے متعلق مسائل پر لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لئے ایک موثر بیانیہ بھی تشکیل دے سکتی ہیں۔جدید ذرائع ابلاغ سے مکمل طورپر آگاہ آصفہ بھٹو کا پا کستان کی خاتون اول مقرر ہونا میری دانست میں لہذا ایک اچھی خبر ہے۔ میں اس سے خیر کی توقع باندھے ہوئے ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت