کیا 8 فروری نے 9 مئی کو نِگل لیا؟ : تحریر عرفان صدیقی


چوپالوں میں بیٹھے، حُقے کے کَش لیتے گپ باز، ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔ اِدھر اُدھر سے کرید لگانے کی سعٔیِ ناکام کے بعد کہنہ مشق صحافی الجھی ہوئی گتھی سلجھانے کیلئے ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ سیاسی موسموں کی پہچان پَرکھ رکھنے والے مبصرین اسی ادھیڑبُن میں سرکھجاتے ہوئے سوجاتے ہیں۔ کوئی حاتم طائی نہیں جو اِس حمام بادگرد کا راز پائے۔ ہر ایک کو بظاہر یہی لگتا ہے کہ دُور جاتے مسافر کی طرح 9 مئی کے قدموں کی چاپ ہولے ہولے معدوم ہوتی جارہی ہے۔ سوختہ بخت کور کمانڈر ہاؤس کی راکھ میں دبی چنگاریاں ٹھنڈی پڑ چکی ہیں۔ قائداعظم کے پیانو کا بے ساز وآواز ڈھانچہ شاید کسی انبوۂِ خاشاک کا حصّہ بن چکا ہے۔ فضائیہ کے زخمی طیاروں کی مرہم پٹی کرکے نیا رنگ وروغن چڑھا دیاگیا ہے۔ شہداء کی تاراج شدہ یادگاریں نئی تزئین وآرائش کے ساتھ پھر سے تعمیر کی جاچکی ہیں۔ قوم کے کَل کیلئے اپنا آج قربان کردینے والے جانبازوں کے شکستہ مجسّموں کی کرچیاں سمیٹی جاچکی ہیں۔ دس ماہ اور تین دِن کی گَرد نے 9 مئی کو بڑی حد تک ڈھانپ لیا ہے۔ کبھی کبھی کوئی کورکمانڈر کانفرنس، شش وپنج میں پڑے بے یقین اور شک زدہ لوگوں کو جھنجھوڑتی اور بتاتی ہے ’’ہرگز نہیں۔9مئی کے کرداروں کو کسی طور معاف نہیں کیاجائے گا۔‘‘ 263ویں کور کمانڈر کانفرنس نے بھی اعلامیہ جاری کیا۔ ’’وزیراعظم پاکستان کے عزم کے مطابق 9مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ لوگ 9 مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے۔‘‘

اُدھر دس ماہ اور تین دِن کے دوران، ایک ہی نفسِ مضمون کے اعلامیوں کو محض صحرا کی بازگشت خیال کرنے والوں کے حوصلے دوچند ہوچکے ہیں۔ آرمی چیف سید عاصم منیر کا تختہ الٹ کر ایک بے چہرہ انقلابی نظام نافذ کرنے کے لئے، فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذریعے فوج کے اندر تلاطم پیدا کرنے کی باغیانہ سازش تیار کرنے والے کردار، بے خوف ہوکر کونوں کھدروں سے نکل آئے ہیں۔ منصوبہ سازوں، زہرپاشی کرنے والوں، فوج کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم چلانے والوں، لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے والوں اور 9 مئی کی غارت گر سپاہ کا حصہ بننے والوں کی بڑی تعداد 8 فروری کے ’’بہشتی دروازے‘‘ کے ذریعے منتخب جمہوری ایوانوں میں آبیٹھی ہے۔

ایوانوں میں کسی کو ٹافی چوسنے، پان کھانے، چیونگ گم چبانے حتٰی کہ پانی پینے تک کی اجازت نہیں۔ یہ سگریٹ پھونکتے، 9 مئی کے مرکزی کردار کی تصویریں ڈیسکوں پر سجاتے، ناشائستہ آوازے کستے، لغونعرے لگاتے اور 9 مئی کی آگ کو اپنے لہجوں میں سموئے آتش بیانی کرتے رہے ہیں۔ سرشام ٹی۔وی ٹاک شوز میں جلوہ گر ہوتے اور بنیادی انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں،اس لئے کہ اب وہ استحقاق یافتہ منتخب عوامی نمائندے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ 8 فروری نے 9 مئی کو کہنی مار کر بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

سید عاصم منیر سے بُغض وعداوت کے گوناں گوں اسباب میں سے ایک کاتذکرہ بہت عام ہے۔ آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ کے طورپر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے پاس ایسے ٹھوس اور مصدقہ شواہد آئے کہ وزیراعظم عمران خان کا گھر، بدترین کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے تو انہوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ سے بات کی کہ آپ یہ سب کچھ وزیراعظم کے علم میں لائیں۔ باجوہ صاحب ’’دُوراندیش‘‘ شخص تھے۔ کہا .’’تم خود بات کرلو۔‘‘ راست مزاج اور صاف گو جنرل عاصم، اس خوش گمانی میں کہ عمران خان کرپشن اور بددیانتی کو سخت ناپسند کرتے ہیں، ناقابل تردید شواہد کا پلندہ اٹھائے وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔ کرپشن کتھا بیان کی اور یہ جنرل عاصم کے نامۂِ اعمال کا سیاہ ورق بن گیا۔ ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آچکا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے دوبار جنرل عاصم سے کہا کہ میرے فلاں فلاں سیاسی حریف پر غداری یا کسی بھی طرح کے سنگین مقدمے قائم کرکے اُنہیں جیل میں ڈالو۔ جنرل عاصم منیر طرح دیتے اور ٹالتے رہے۔ جب تیسری بار خان صاحب نے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ کو روبرو بٹھا کر تحکمانہ رعونت کے ساتھ یہی حکم دیا تو جنرل نے بھی ترکی بہ ترکی کہا۔ ’’مسٹر پرائم منسٹر! میں نے کسی اور بات کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ آئی۔ایس۔آئی کے چیف کا کام آپ کے سیاسی حریفوں پر جھوٹے مقدمے بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالنا ہرگز نہیں۔ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔‘‘ جنرل عاصم منیر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’سوری سر‘‘ کہتے ہوئے وزیراعظم کو سیلوٹ کیا اور کمرے سے نکل گئے۔ خان صاحب کے دِل پر لگنے والے اس گہرے زخم سے ابھی لہو رس ہی رہا تھا جب سید عاصم نے خانگی کرپشن کی پٹاری بھی کھول دی۔ وزیراعظم نے فرمان جاری کیا۔’’ اس گستاخ اور نافرمان جرنیل کو فوراً آئی۔ایس۔آئی سے نکالو۔ ‘‘ سو صرف سات ماہ نو دِن بعد ایک نیک نام افسر کو بے مروت انداز میں آئی۔ایس۔آئی سے فارغ کردیا گیا۔ یہ پوری پاکستانی تاریخ میں کسی بھی آئی۔ایس۔آئی سربراہ کا مختصر ترین عرصہ تھا۔

منتقم مزاج وزیراعظم نے جنرل سید عاصم منیر کی سرکشی کو کبھی معاف نہ کیا۔بطورآرمی چیف اُن کی تقرری کو کوچہ وبازار کا موضوع بنایا۔ اعلان سے دو دِن پہلے لانگ مارچ کرتے ہوئے راولپنڈی پہنچے۔ سعودی عرب کو بھڑکانے کی سازش کا حصہ بنے۔ اپنے پشتیبانوں سے مل کر 9 مئی کی سازش تیار کی۔ نشانہ کوئی بھی ہو ،د رحقیقت یہ ریاست، جمہوریت اور فوج کے نظم وضبط کے خلاف بغاوت تھی جو ناکام ہوگئی۔ اس نوع کی بغاوتیں کامیاب ہوجائیں تو اپنا سکہ جمانے کیلئے سفاکانہ حربے اختیار کرتی ہیں۔ ناکام ہوجائیں تو سنگین تر سفاکی کانشانہ بن جاتی ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کی واحد بغاوت ہے جو جزوی طورپر کامیاب اور حتمی طورپر ناکام ہوگئی لیکن فوج کے چند اعلیٰ افسران کے سوا، آج تک کسی ایک بھی سول کردار کو سزا نہیں ہوسکی۔ سزا تو کیا کسی ایک پر بھی 9 مئی کے حوالے سے قانونی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دی۔

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عمران خان بھی 9 مئی سے کلی طورپر بری الذمہ ہونے کا دعویٰ کرتے اور کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیے کی تائیدکررہے ہیں۔ عدالتی کمیشن قائم کرنے کے مطالبے کررہے ہیں۔ سی، سی کیمروں کی فوٹیج سامنے لانے کا چیلنج دے رہے ہیں اور یاد دلارہے ہیں کہ امریکہ نے تو کیپیٹل ہل میں گھُس جانے والوں کو سخت سزائیں سنادی تھیں، ہماری حکومت کیوں چپ ہے؟

کیا 8 فروری 9 مئی کو نگل گیا ہے یا یہ محض واہمہ ہے؟ بظاہر کچھ بھی لگے، دیوار پر کندہ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کے کرداروں کو لمبی چھوٹ ملنے کا عرصہ تمام ہوا۔ دس ماہ تین دِن کی آسودگی سے حوصلہ پانے والوں کو خبر ہو کہ 9 مئی قانون کی تمام تر قوت سے لیس ہوکر حرکت میں آنے کو ہے۔ 8 فروری نے ایک دریچہ ضرور کھولا تھا لیکن قیدی نمبر804 نے اس کا رُخ بھی آتش فشانی پہاڑوں کی طرف موڑ کر دور جاتے 9 مئی کو واپس بلالیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ