آپ میں سے کافی لوگ جائزیا ناجائز وجوہات کی بنا پر محمود خان اچکزئی کو سخت ناپسند بھی کرتے ہوں گے۔ موصوف کو لیکن میں 1990 سے بطور صحافی کئی بار تنہائی میں ملا ہوں۔ ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں میں انہیں وطن عزیز میں پارلیمانی نظام حکومت کو مضبوط تر بنانے کی تڑپ میں مبتلا پایا۔ مذکورہ تڑپ کا پہلی بار احساس مجھے 1993 کے آغاز میں ہوا تھا۔ وہ برس شروع ہوتے ہی اسلام آباد کے طاقت ور حلقوں میں یہ افواہ پھیلنا شروع ہوگئی تھی کہ ہماری سول اور فوجی افسر شاہی کے بابا کہلاتے صدر غلام اسحاق خان لاہور کے ایک صنعت کار گھرانے سے ابھرے نواز شریف سے کاملا ناراض ہوچکے ہیں۔
ریاست کے لئے معاشی پالیسی سازی کے کلیدی کرداروں میں نمایاں ترین فردہوتے ہوئے صدر غلام اسحاق خان موٹروے جیسے منصوبوں کو پاکستان جیسے ممالک کے لئے عیاشی اور سرمایے کا زیاں گردانتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں نواز حکومت کی اس پالیسی سے بھی شدید اختلاف رہا جو غیر ملکوں سے آنے والے پاکستانیوں کو ایئرپورٹ سے اترکر کسٹم افسران کی پوچھ تاچھ کے بغیر گرین چینل کے ذریعے اپنے سامان سمیت سرعت سے باہر آنے میں مدد گار ثابت ہوتی تھی۔افواہیں پھیلیں کہ مذکورہ سہولت کی وجہ سے حکومت کو کسٹم کی مد میں روزانہ بھاری بھر کم آمدنی سے محروم ہونا پڑرہا ہے۔ غلام اسحاق خان بازار میں ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی خریدوفروخت کے فیصلے سے بھی ناخوش تھے۔وہ افسروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو غیر ملکی زرمبادلہ کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مکمل کنٹرول میں رکھنے کو بضد رہے۔
غلام اسحاق خان کی عموما افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے حامیوں کے برعکس نوازشریف کے چاہنے والوں کا یہ اصرار تھا کہ بابا 1988 میں صدر ضیا کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد اتفاقاپاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ 1993 میں ان کی معیادِ صدارت ختم ہونا تھی۔دل سے وہ ایوان صدر چھوڑنے کو آمادہ نہیں۔ خواہشمند ہیں کہ نواز شریف انہیں نظر بظاہر ایوان صدر میں براجمان رہنے کو منت سماجت سے قائل کریں۔ نواز شریف مگر اس جانب بڑھنے کا اشارہ بھی نہیں دے رہے تھے۔ نواز شریف کی مبینہ بے اعتنائی سے اکتاکر بابا نے چودھری الطاف حسین مرحوم سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ چودھری صاحب پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر جہلم سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔شریف ا لدین پیرزادہ جیسے شاطر ماہر قانون سے ان کی دیرینہ دوستی تھی۔پیرزادہ صاحب کو محلاتی سازشوں کی علت بھی لاحق تھی۔ انہوں نے چودھری الطاف مرحوم کو غلام اسحاق خان کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کی صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ باقاعدگی سے ہوئی ملاقاتوں کی بدولت تاثر یہ پھیلنا شروع ہوگیا کہ بابا ان دنوں ہمارے آئین میں موجود آٹھویں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کو ان ہی الزامات کے تحت فارغ کرنا چاہ رہے ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمی کی فراغت کے لئے استعمال ہوئے تھے۔
مذکورہ بالاتاثر حقیقت کی صورت اختیار کرنا شروع ہوا تو محمود خان اچکزئی نے پیپلز پارٹی کے ایک سینئر اورمتحرک رکن قومی اسمبلی افتخار گیلانی کو اپنا حلیف بناتے ہوئے پیپلزپارٹی میں ایسے لوگ ڈھونڈنا شروع کردئے جو افسر شاہی سے ابھرے بابے کے مقابلے میں پارلیمانی جمہوریت کو توانا تر بنانے کے لئے کام کریں۔پیپلز پارٹی میں لیکن چودھری ا عتزاز احسن ،فاروق لغاری اور آفتاب شیر پاؤ جیسے قدآور لوگ نواز شریف سے اکتاچکے تھے۔ ان کی دانست میں پیپلز پارٹی کے حقیقی دشمن غلام اسحاق نہیں بلکہ نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت تھے۔ نواز شریف کو کمزور تر بنانے کے لئے انہوں نے بابے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بالآخر آصف علی زرداری بھی اس گروپ کے حامی بن گئے۔ وجہ اس کی یہ عمومی تاثر بھی تھا کہ آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات بناکر انہیں درحقیقت روئیداد خان کی سربراہی میں کام کرنے والے احتساب سیل نے جیل بھجوادیا تھا اور مذکورہ سیل نواز حکومت کے بجائے بابے کو جوابدہ ہے۔
اچکزئی کی کوششیں اپریل 1993 میں تاہم ناکام ہوگئیں۔اس ماہ کے وسط میں غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت کو آٹھویں ترمیم کی وجہ سے میسر اختیارات استعمال کرتے ہوئے فارغ کردیا۔ نواز شریف کی فراغت ہوئی تو اچکزئی نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ افتخار گیلانی نے بھی ایسا ہی رویہ اپنایا۔نسیم حسن شاہ کا سپریم کورٹ بھی نواز حکومت بحال کرنے کو ڈٹ گیا۔ بالآخر ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے وہ حکومت بحال بھی کردی گئی۔نواز شریف کو مگر اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ بابے نے اپریل 1993 میں جو افراتفری مچائی اس کی وجہ سے 1993 میں کاکڑ فارمولے کی وجہ سے تازہ انتخاب ہوئے جن کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمی کے دفتر لوٹ آئیں۔
پارلیمان کے تحفظ ہی کے لئے محمود خان اچکزئی 2014 میں تحریک انصاف کی جانب سے 126دنوں تک اسلام آباد میں دئے دھرنے کے شدید مخالف رہے۔مذکورہ مخالفت کی وجہ سے عمران خان دھرنے کے شرکا کے روبرو اچکزئی کی چادر کا حقارت سے تذکرہ کرتے رہے۔ تاریخ کا جبر بھی لیکن حیران کن ہوتا ہے۔ دس برس گزرجانے کے بعد 2024 میں تحریک انصاف نے دریافت کرلیا ہے کہ محمود خان اچکزئی جمہوریت پسند ہیں۔ ان کی پارلیمانی نظام سے ثابت قدم وفاداری کا اعتراف کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف نے اچکزئی کو صدارتی امیدوار بھی نامزد کردیا۔ وہ جیت نہ پائے کیونکہ صدر کے انتخاب کے لئے پاکستان کے تمام منتخب اداروں پر مبنی الیکٹورل کالج میں مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو نمایاں اکثریت میسر ہے اور آصف علی زرداری ان کے مشترکہ امیدوار تھے۔
اچکزئی صاحب نے تمام تر تحفظات کے باوجود اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے لیکن پارلیمانی نظام کو توانا تر بنانے کے متمنی محمود خان اچکزئی نے جو تقریر کی ہے اس کے چند نکات کو مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو بھی نہایت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ آصف علی زرداری کی جیت کا ا علان ہوجانے کے بعد اچکزئی صاحب نے جو تقریر کی اس کا کلیدی پیغام میری دانست میں یہ تھا کہ سیاستدانوں کو عدلیہ یا دیگر اداروں کی مدد سے اپنی خواہش کے مطابق سیاسی نقشے تیار کروانے کے بجائے پارلیمان میں مل بیٹھ کر کھلے دل سے چند بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنا ہوگا۔ مطلوبہ اتفاق کے بغیر ہمارے ہاں حکومتوں کا آنا جانا لگارہے گا اور سیاسی استحکام نامی شے سے ہم ہمیشہ کیلئے محروم ہوجائیں گے۔ کاش اچکزئی صاحب کے خیالات پر سیاسی کارکن ہی نہیں ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائیذہن ساز بھی تھوڑی توجہ دینے کا وقت نکال پائیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت