لاہور میں 33 ویں عالمی پنجابی کانفرنس کا انعقاد کر کے فخر زمان نے ایک سنہری ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔فخر زمان وہ پنجابی ہیرو ہے جس نے مغالطوں، تضادات، الزامات اور جھوٹی کہانیوں کے چکروں میں الجھے پنجابیوں کے لیے منزل کی راہ ہموار کی۔پنجاب کی اصل شناخت سے روشناس کرانے کے لئے پنجاب کی زرخیز دھرتی کے احسانات اور دلیر پنجابیوں کے کمالات کو اجاگر کرنے کے لئے راستہ کھوجا، پنجابی کانفرنس کو وسیلہ بنا کر چلے، کچھ لوگوں نے پروپیگنڈا کیا، کچھ نے فتوے اور کچھ نے غداری کے الزامات لگائے مگر اکثریت نے دل کی بات دل سے سنی۔لوگوں نے اپنی اصل یعنی اپنی جڑوں کو تلاش کرنا شروع کیا تو قافلہ بڑا ہوتا گیا۔ بات شہر شہر ملک ملک پھیلتی چلی گئی۔ جہاں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کرناآسان نہ ہو وہاں مختلف ملکوں سے 60 سے زیادہ لوگوں کو مدعو کرنا کس قدر مشکل ہو سکتا ہے منتظم ہی جانتا ہیکہ کیڑے نکالنے اور مشورے دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن ہاتھ بٹانے اور ساتھ دینے والے کم کم ہوتے ہیں۔ کمٹمنٹ کا اجر دیکھئے۔ آج ان کے شروع کیے ہوئے اس عظیم مقصد کی شکلیں مختلف حوالوں سے ہمیں اپنے چہارجانب نظر آتی ہیں۔
آئے دن کوئی نہ کوئی میلہ سجتا رہتا ہے ۔اس کانفرنس نے واہگہ کے دونوں طرف رہنے والے پنجابیوں کو باشعور کرنے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت پنجاب کو دو لخت ہونے کا جو کرب سہنا پڑا اس کی ٹیسیں اب تک پنجاب کی فضاوں میں گونجتی ہیں انہیں ٹیسوں نے دونوں اطراف کے پنجابیوں کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے امن محبت اور بھائی چارے سے رہنے کی طرف متوجہ کیا ہے کیونکہ لڑائی کی صورت میں لہو ان کا ہی بہتا ہے۔واہگہ کے دونوں طرف کے بہادروں اور سورماوں کو غدار جبکہ لٹیروں کو ہیرو بنانے کا سلسلہ ہماری تاریخ کے اوراق کو سیاہ کیے ہوئے ہے۔لاہور میں 33 ویں کانفرنس اس حوالے سے بے حد اہم تھی کہ اس میں پنجاب کے ہیرووں کی اجلی کہانیاں بیان کرکے پنجاب کی اصلی شناخت کو اجاگر کرنے کا فریضہ سرانجام دیا گیا۔ فخر زمان چیرمین ورلڈ پنجابی کانگرس،سہج پریت مانگھٹ اور گربھجن سِنگھ گِل کے خطاب امن، محبت اور ثقافت کی ترقی کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم سے بھرپور تھے۔ ہندوستانی پنجاب کی طرف سے جن خواتین و حضرات نے فن،کلچر، ادب اور پنجاب کے بہادر سور ماوں پر جو مضامین پیش کئے وہ نئی نسل کو خود پر فخر کرنا سکھائیں گے۔ انیتا شبدیو نے عورتوں کے ایشوز پر سولو تھیٹر میں اپنی جاندار پرفارمینس سے محفل میں موجود ہرفرد کو حیران کردیا۔ادیبوں، شاعروں اور محققین کے علاوہ گلوکار، فنکار بھی وفد میں شامل تھے۔ وجدان کی طرف سے وفد کے اعزاز میں کلچرل پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں خوبصورت گلوکار عدیل برکی، عمران شوکت علی اور روندر گریوال نے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرکے محفل کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ پروگرام کے آخر میں تینوں گلوکاروں نے دونوں طرف کے مشہور لوک گیت گا کر ہال کو بھنگڑا گروپ میں تبدیل کردیا۔ کانفرنس کے آخری روز عظمی بخاری وزیر اطلاعات و ثقافت اور رمیش سنگھ اروڑا وزیر اقلیتی اموروفد کو خوش آمدید کہنے تشریف لائے،عظمی بخاری کی خوبصورت پنجابی اورپرجوش خوش آمدید کو وفد نے سراہا اور پنجاب میں پہلی خاتون وزیراعلی کے علاوہ سِکھ کو وزیر بنانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر راقم کی ہندوستان میں شائع ہونے والی کتاب کی رونمائی بھی کی گئی۔دونوں وزرا نے حکومت پنجاب کی طرف سے زبان وادب کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔چوتھے اور پانچویں دن وفد نے حکومت پنجاب کی مہربانیوں کے شکریے اور دعا کے ساتھ ننکانہ صاحب اور کرتار پور کا دورہ کیا۔
محبت، امن، رواداری اور اچھی ہمسائیگی کا یہ سفرجاری رہناچاہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ