کونسا ماڈل؟ بنگلہ دیش یا برما؟ : تحریر سہیل وڑائچ


جیسے تیسے یا کیسے بھی دوتہائی اکثریت والی حکومت بن گئی ہے۔دھاندلی، ناانصافی، زور زبردستی کہیں یا اسے پاکستانی روایات کے عین مطابق قرار دیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریاست نظام کو آگے چلانا چاہ رہی ہے۔ انتخابات سےپہلے کہا جا رہا تھا کہ اگلی حکومت کو دوتہائی اکثریت ملے گی اور وہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرح اقتصادی ترقی پر فوکس کرے گی۔ مقتدرہ، عدلیہ اور تمام ادارے شیخ حسینہ واجد کی طرح وزیر اعظم کی بھرپور حمایت کریںگے اور سیاسی مخالفوں کو حکومت کے راستے میں مزاحم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ الیکشن کے غیر متوقع نتائج نے ریاستی منصوبوں پر ضرب تو لگائی مگر یہ منصوبے اب بھی اسی ٹارگٹ کی طرف جاری و ساری ہیں۔ ریاست پہلے سب کچھ نون کے وزیر اعظم کو دینا چاہتی تھی ،تاہم پھر مخلوط حکومت بنانا پڑی مگر اب بھی ہم تیزی سے بنگلہ دیش ماڈل کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ کور کمانڈرزکانفرنس کا اعلامیہ بتا رہا ہے کہ 9مئی کے ذمہ داروںکیلئے کوئی معافی نہیں، گویا عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے ابھی سیاسی نظام کے اندر کوئی گنجائش نہیں نکالی جارہی بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ سختیوں کا دور پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔ گویا ریاست سیاسی استحکام کا راستہ مفاہمت میں نہیں دباؤ میں دیکھ رہی ہے۔

بنگلہ دیش ماڈل میں مرکزی کردار سویلین وزیراعظم کا ہے۔

مجھے اندیشہ ہے کہ اگر سیاسی گڑ بڑ رہی، مظاہرے سڑکوں پر آگئے تو کہیں ہم برما (نیا نام میانمار) ماڈل کی طرف نہ چلے جائیں، جہاں کی فوجی جنتا نے 2021سے اقتدار سنبھال رکھا ہے وہاں کی پاپولر لیڈر آن سان سوچی مسلسل جیل میں ہے، ملٹری جنتا کو چین سے معاشی مدد حاصل ہے جبکہ مغربی دنیا اس سے ناراض ہے مگر اسکے باوجود برما فوجی جنتا کی سربراہی میں چلتا جا رہا ہے ۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کےبعدسےپاکستان بین الاقوامی دنیا کیلئے ایشیا کا پچھواڑا بن چکا ہے ہم ڈوبتے ہیں یا تیرتے ہیں اس کا فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے دنیا میں سے کوئی ہماری مدد کو آنےکیلئے تیار نہیں۔ ہمیں جتنی جلدی اس کا ادراک ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے، کسی زمانے میں امریکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے کافی حساس ہوا کرتا تھا مگر ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس کی دلچسپی بہت کم ہوگئی ہے۔

برما کی فوجی جنتا نے گورننس کیلئے ایس اے سی یعنی سٹیٹ ایڈمنسٹریشن کونسل بنا رکھی ہے، جس میں شروع میں 11ارکان تھے، 8 فوجی افسر تھے اور 3 سویلین ، اب سویلینز کی تعداد 6 تک بڑھا دی گئی ہے۔ پاکستان میں ایس آئی ایف سی یعنی سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل بنائی گئی ہے جس کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے تاہم اس کے اراکین میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ ایس آئی ایف سی بنائی تو سرمایہ کاری کوسہولت پہنچانے کیلئے ہے مگر جہاں فوجی اورسویلین اکٹھے بیٹھیں ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ وہاں غلبہ فوج کاہی ہوجاتا ہے۔اس حوالے سے سویلینز اور فوجیوں، دنوں کو احتیاط کا مشورہ ہے کہ یہ کہیں آئین سے بالاتر کوئی نیا ادارہ نہ بن جائے اور پھر ساری گورننس ہی برما کی طرح اس سے شروع ہوجائے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غیرمتوقع انتخابی نتائج نے ریاست کو ایک بڑا ’’شاک‘‘ دیا تھا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع ہوگئی تھی لیکن اب ریاست دوبارہ سے سنبھل رہی ہے۔ ریاستی سوچ میں انتخابی نتائج نے کوئی فرق نہیں ڈالا ،ہاں انہوں نے اپنے اندر آرا اور سٹرٹیجی پلاننگ میں تضادات کو کم کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔ سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ 8فروری کے نتائج کے بعد عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالا میں نظر بند کر دیا جاتا اور 1977ء میں جیسے وزیر اعظم بھٹو نے قومی اتحاد کے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند لیڈروں سے مذاکرات کئے تھے نیا وزیر اعظم ان سے مذاکرات کرتا، 1977ء میں فوج نے قومی اتحاد کی لیڈر شپ کو بھی بریفنگز دی تھیں ویسے ہی سکیورٹی اور معاشی بریفنگز عمران خان کو دی جاتیں اور انہیں مصالحت کیلئے آمادہ کیا جاتا۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟۔

سیاسی بحران کا دوسرا منصفانہ حل اس عاجز کی نظر میں یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ایک آل پارٹیز پارلیمانی کمیٹی بنا دی جائے جو دھاندلی کی تحقیقات کرے، انتخابی عذر داریوں کی جو بھی درخواستیں وصول ہوئی ہیں وہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں اگر تو یہ ساری شکایتیں درست ہوں اور اس سے پی ٹی آئی کی اکثریت بن جائے تو شہباز شریف مستعفی ہو جائیں اور پی ٹی آئی حکومت بنائے اور اگر یہ شکایات درست ثابت نہیں ہوتیں تو پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور پارلیمانی اپوزیشن کا کردار اداکرے۔ سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میری رائے میں پاکستان نہ بنگلہ دیش ہے اور نہ برما۔ یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے چار دہائیوں سے زیادہ حکومت کی، اس کی حکومت چلانے میں سکھوںکا کردار کم اور مسلمانوں اور فرانسیسیوں کا زیادہ تھا۔ اکبر بادشاہ نے 50سال حکومت کی اس کی حکومت اور حرم دونوں میں ہندوؤں کا بہت بڑا کردار تھا۔گویا مفاہمت ہی اس خطے میں امن کی کنجی ہے۔ لڑائی جھگڑوں، گالیوں، دشنام طرازی اور ایک دوسرے سے انتقام لینےسے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔اب بھی پاکستان کی سیاست اور معیشت کو مستحکم کرنےکیلئے مفاہمت ضروری ہے، نوازشریف اس وقت سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیںانہوں نے سیاست کے سرد و گرم دونوں دیکھے ہیں انہیںبحران کے حل کیلئے پہل کرنی چاہیے۔ صدر زرداری خود کئی بار ریاستی عتاب کا شکار رہے وہ اس حوالے سے لیڈ لےسکتے ہیں ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں جا کر عمران خان سے ملیں، وہ انکار کردے پھربھی بار بار ملنے کی خواہش کا اظہار کریں اور اسے قائل کریں کہ وہ مین سٹریم سیاست میں آئے اور اسکے گلے شکوے دور کئے جائیں۔ عمران خان بھی اپنے فیصلوں کی کافی سزا بھگت چکے، انہیں بھی لچک دکھا کراہل سیاست اور پاکستان کی مقتدرہ دونوں سے روابط بحال کرنے چاہئیں۔ تن تنہا وہ انقلاب تو لا سکتے ہیں ملک کو چلانے کیلئے انہیں پھر مقتدرہ اور مخالف سیاستدانوں کی مدد کی ضرورت ہوگی جس قدر جلدی مفاہمت کی کوششیں شروع ہوں ملک کیلئے اتنا ہی اچھا ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ برما اور بنگلہ دیش میں اپوزیشن پر سختیوں سے ملک کے اندر تلخیاں بڑھی ہیں اور ان ملکوں کا نام بدنام ہوا ہے، ہمیں ان ملکوں کی پیروی کرنے کی بجائے آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیےاور اگر واقعی ہم اس منزل تک پہنچنا چاہتےہیں تو مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ